Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

بیماری کی ارواح | حقیقت یا محض خوف

تحقیق : کنول ناصر

"بری روحوں” یا شیطانی روحوں”کا تذکرہ نہ صرف زمانہ قبل از تاریخ کے دریافت شدہ دستاویزات کا حصہ رہا ہے، بلکہ ان سے نجات اور بچائو کے لئے منتر اور جھاڑ پھونک تمام قدیم تہذیبوں جیسے بابلی، مصری، ہندی اور چینی تہذیبوں کی باقیات کا لازمی حصہ ہیں۔

اگر ہم الہامی مذاہب کی بات کریں تو یہودیت میں کچھ فرقے ان ارواح پر یقین رکھتے ہیں، اور کچھ ان کے وجود کے انکاری ہیں۔
عبرانی بائیبل میں "حنوک کی کتاب” اور "جوبلیز” میں ان ارواح کو برائی کے منبع کے طور پر بتایا گیا ہے۔
البتہ عیسائیت کا محور چونکہ روحانی پاکیزگی کے ذریعے شفا کا حصول ہے، اس لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں میں انسان کی اخلاقی اصلاح کے نقطہ نظر سے شیطانی روحوں، دھوکہ دینے والی روحوں، چھوٹی روحوں یا شیاطین کے تصور کی ایک واضح تصویر کشی کی گئی ہے۔

جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے :

جبکہ بری روحیں برائی کے درجہ بندی کے ایک حصے کے طور پر موجود ہیں ( افسیوں 6:12 ) شیطان کے ساتھ ان کے رہنما کے طور پر ( متی 12:24 )، وہ خدا کی حکمرانی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔

پرانے عہد نامے میں مذکور زیادہ تر بری روحیں خُدا کی طرف سے نافرمان انسانوں پر سزا کے طور پر بھیجی گئی تھیں ( 1 کنگز 22:20-23 )۔
خُداوند نے یہ ظاہر کرنے کے لیے ایک بد روح بھیجی کہ اُس نے ساؤل کو بادشاہ کے طور پر رد کر دیا ہے۔

شیطانی روح نے ساؤل کو غصہ اور مایوسی کا تجربہ کیا: "اب خداوند کی روح نے ساؤل کو چھوڑ دیا تھا، اور خداوند نے ایک اذیت دینے والی روح بھیجی جس نے اسے افسردگی اور خوف سے بھر دیا۔ ساؤل کے کچھ نوکروں نے اس سے کہا، ‘خدا کی طرف سے ایک اذیت ناک روح تمہیں پریشان کر رہی ہے'” ( 1 سموئیل 16:14-15، NLT )۔

نئے عہد نامہ میں، بدروح کی اصطلاح اکثر بد روح کے ساتھ ایک دوسرے کے بدلے استعمال ہوتی ہے ۔

یہ شریر عناصر انسانی رعایا کو ناپاک اور برائی لاتے ہیں۔ ان کا مقصد اخلاقی خرابی کی بجائے جسمانی نقصان، معذوری اور بیماری کو پہنچانا ہو سکتا ہے۔

یسوع مسیح نے ان لوگوں میں سے بری روحیں نکال دیں جو ان کے قبضے میں ہیں ( متی 8:16 ؛ مرقس 5:1-13 ؛ 7:24-30 ) اور اپنے شاگردوں کو اپنے نام پر ایسا کرنے کی طاقت دی ( متی 10:1 ؛ اعمال 5) :12–16 ؛ 8:4–8 ؛ 16:18 )۔ شیطانی روحیں جانتی ہیں کہ یسوع کون ہے اور وہ مستقبل میں ان کا فیصلہ کرے گا اور سزا دے گا ( متی 8:29 ؛ مرقس 1:24 ؛ 5:7 )۔

آخری وقتوں میں، بہت سے لوگ بری روحوں اور جھوٹی تعلیمات سے دھوکہ کھا جائیں گے جو وہ متاثر کرتے ہیں ( 1 تیمتھیس 4:1 )۔
یعنی عیسائیت کے مطانق بری روحیں اخلاقی برائی سے وابستہ ہیں۔

کم و بیش یہی حقائق قرآن مجید کے مطالعے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بری روحوں کے لیے زیادہ تر "شیاطین” کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلا:
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُﭤ(221)تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ(222)یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَﭤ(الشعراء 223)
کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اُترتے ہیں شیطاناُترتے ہیں ہربڑے بہتان والے گناہگار پر شیطان اپنی سنی ہوئی اُن پر ڈالتے ہیں اور اُن میں اکثر جھوٹے ہیں
اسی طرح سورہ زخرف میں ارشاد ہے

: وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(36)
اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی رہتاہے۔

سورہ البقرة میں ارشاد ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(268)

شیطان تمہیں محتاجی کااندیشہ دلاتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی طرف سے بخشش اور فضل کاوعدہ فرماتا ہے اور اللہ وسعت و الا، علم والا ہے۔

اسی طرح سورہ الاعراف میں آدم علیہ السلام کی تخلیق اور جنت سے نکالے جانے کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں شیطان اللہ تعالٰی سے مکالمے میں دعوی کرتا ہے :
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾بولا کہ مجھے تو تو نے گمراہ کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان کو گمراہ کرنے کے لئے بیٹھوں گا۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ ﴿۱۷﴾پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے غرض ہر طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگذار نہیں پائے گا۔
آگے کی آیات میں شیطان کے آدم کو بہکانے کا واقعہ بتانے کے بعد رب تعالٰی نے بنی آدم کو تنبیہ کی ہے:

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۲۷اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر بہشت سے نکلوا دیا، اور ان سے ان کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان کے ستر انکو کھول کر دکھا دے۔ وہ اور اسکے بھائی بند تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے تم انکو نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا رفیق بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔

طاغوتی یا شیطانی نظام کے متعلق سورہ البقرة میں فرمایا :
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵۷﴾٪٪۳۴جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے کہ اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اسی طرح سورہ الانعام میں فرمایا :
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾
اور اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا۔ وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے سو ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دو۔وَ لِتَصۡغٰۤی اِلَیۡہِ اَفۡـِٕدَۃُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ لِیَرۡضَوۡہُ وَ لِیَقۡتَرِفُوۡا مَا ہُمۡ مُّقۡتَرِفُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾اور وہ ایسے کام اس لئے بھی کرتے تھے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انہیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں۔

اسی طرح جیسے بائیبل کے مطابق اللہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ اور ان کے سجے پیرو کاروں کو بری روحیں نکالنا سکھایا تھا، اسی طرح قرآن میں بھی ہمیں سورۃ الرحمن سکھائی، جس میں اللہ تعالٰی گروہ جن و انس دونوں سے مخاطب ہے۔

اس سورۃ میں بالترتیب پہلے اللہ تعالٰی نے دونوں مخلوقات کو اپنے اختیارات کا حوالہ دیا ہے، پھر نافرمانوں کے لئے عذاب اور پھر تقریبا آدھی سورت میں "جنتان” یعنی فرمانبردار انسانوں اور جنوں کے لئے الگ الگ دو جنتوں اور دونوں کے لئے الگ الگ حوروں کا وعدہ کیا ہے ۔

مزید ایک یا دو آیات کے بعد بار بار "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ”(پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا جھٹلاؤ گے؟)آتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ تجربے میں آیا ہے کہ مصر کے قاری باسط کی سورۃ الرحمان کی تلاوت لگاتار سننے سے لاعلاج مریض بھی صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مصری ان کی مادری زبان تھی، لہذا ان کی تلاوت اس لئے فوری اثر کرتی ہے کہ ان کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وہ بری یا بیماری کرنے والی روحوں سے مخاطب ہوں۔

اسی طرح صوفی ازم میں بھی بری روحوں سے نجات دلانے کے طریقے اور کلام سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں۔

اگرچہ اللہ تعالٰی نے اپنے کلام کے ذریعے ہمیں ان بری روحوں سے نجات کے طریقے بتا دیئے ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ اگرچہ یہ بری روحیں evil spirits شیطانی طاقتیں ہیں جو جادو کے موکلات یا کسی اور طرح کے نحوست کے اثرات کے تحت انسانوں میں بیماری، معذوری، جنون، یا مصیبت لانے کا باعث بنتی ہیں، لیکن یہ سب اللہ کی حکمت یا مصلحت کے تحت اپنی مخلوق کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے مسلط ہوتی ہیں جیسا کہ سورۃ البقرة کی جادو کی وضاحت میں نازل ہونے والی آیت میں واضع کیا گیا ہے: فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ غرض لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈالدیں۔ اور اللہ کے حکم کے سوا وہ اس چیز سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین اس انسان پر نازل ہو کر ایذا پہنچاتے ہیں جن میں ایک تو شیطانی وصف یعنی تکبر اور احساس برتری کی گنجائش ہو یعنی جس میں انکساری ہو وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آ سکتا۔

دوسری جب آپ یہ دیکھیں کہ جس میں یہ چار خصوصیات ہوں یعنی جھوٹ، اللہ کے ذکر سے منہ پھیرنا، نعمتوں کی ناشکری و بے اطمینانی آخرت پر کمزور ایمان یا ایمان کی غیر موجودگی تو اس کے ان اعمال کی نحوست سے بری روحیں بیماری، مصیبت اور رزق کی تنگی میں مبتلا کر دیں گی۔

اگر غور کریں تو تمام بیماریوں کی بنیادی وجوہات بھی یہی خصوصیات بنتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں، اور اس کی طرف سے بخشش کے طالب ہوتے ہیں، لیکن کبھی اپنی نفسانی خواہشات کے باعث تو کبھی اپنے ماحول کے باعث اور کبھی لاعلمی کی وجہ سے جھوٹ گناہ اور نافرمانی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

لہذا یہی وہ لوگ ہیں جن پر بیمار کرنے، مصیبت میں مبتلا کرنے اور برائی کے راستے سے روکنے کے لئے بڑی روحوں کو مسلط کیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگ اس دنیا میں ہی اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی سزا بھگت لیں اور پاک صاف ہو کر اللہ کی جنتوں میں داخل ہوں۔

دوسری جانب شیاطین جن کا ذکر حضرت داؤد اور سلیمان کے حوالے سے سورۃ ص، انبیاء، شباب اور نمل میں ملتا ہے جو کہ اللہ کے حکم سے ان کے لئے غوطہ خوری، برتن سازی اور بیت المقدس سمیت بڑی عمارات کی تعمیر جیسے کا کرتے تھے۔

علماء کے مطابق چونکہ اللہ تعالٰی نے حضرت سلیمان کو تمام مخلوقات پر حکومت دی تھی یہاں تک کہ ہوا بھی ان کے تابع تھی، لہذا نیک اور شریر دونوں طرح کے جن ان کے تابع تھے اس لئے نیک جن تو اپنا کام احسن طریقے سے کرتے رہتے تھے جبکہ سورۃ سبا کے مطابق جب شریر جن کوئی نافرمانی کرتے تو انہیں سزا دی جاتی:
ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۲﴾نکے پروردگار کے حکم سے انکے آگے کام کرتے تھے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کیخلاف کرے گا اسکو ہم جہنم کی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔

یعنی جہاں یہ شیطانی قوتیں کمزور ایمان اور اللہ کے نافرمانیوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں، وہاں انبیاء اور صالحین کے تابع ہوکر ایسے کام کرتی ہیں جو انسانی قوت سے باہر ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اہرام مصر بھی جنوں نے ہی تعمیر کیئے تھے۔

لہذا امام سیوطی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں "روحیں اللہ کا لشکر ہیں.”
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إن الشَّيْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ لَا اَبْرَحُ اُغْوِي عِبَادَكَ مَا دَامَتْ أرواحهم فِي أجسادهم قَالَ الرَّبُّ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا اَزَالُ اَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي‏.‏
( مسند أحمد:3/29 – مستدرك الحاكم :4/261 – مسند أبو يعلى : 1399 )
ترجمہ : حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شیطان نے اللہ تبارک وتعالی سے کہا :اے میرے رب تیری عزت کی قسم جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں میں انہیں برابر بہکاتا رہوں گا ، اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا : میرے عزت وجلال کی قسم ! جب تک وہ مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں گے میں بھی انہیں معاف کرتا رہوں گا ۔{ مسند احمد ، الحاکم وغیرہ }

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جیسے عام انسان ایسا کیا کریں کہ صالحین کی طرح اللہ ہم سے محبت کرے، اور کائنات کی طاقتیں ہمارے لئے مسخر کر دے تو اس کا حل بہت آسان ہے۔ وہ یہ کہ مذکورہ بالا تمام گناہوں یعنی عجب یا high self esteem سے نجات حاصل کریں اور عجز وانکساری کا وصف اپنے اندر پیدا کریں مزید مصیبت کا باعث بننے اعمال خبیثہ یعنی جھوٹ، اللہ کے ذکر سے منہ پھیرنا، ناشکری اور ایمان کی کمزوری سے نجات حاصل کرکے ان خصائل کی متضاد خصوصیات یعنی سچائی، اللہ کے ذکر اور شکر میں لگے رہنا اور اللہ کی طاقت اور اختیار پر مضبوط ایمان کو اپنی ذات کا حصہ بنائیں۔

یہ تصور اسلام میں نیا نہیں بلکہ زندکی کے مصائب خاتمہ اور انسانیت کی معراج تک پہنچنے کے لیے تاریخ کے تمام مذاہب کی یہی تعلیم ہے۔

یہی کلیہ God like qualities کے حصول کے لیے قدیم مصریوں کا تھا۔ یہی فارمولا انسانیت کی بھلائی اور محبت کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا عیسائیت تعلیم دیتی ہے یہانتک کہ بدھ مت میں بھی نروان کا یہی تصور ہے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے، اور تکلیف سے رہائی کے یہی دو طریقہ ہیں۔

لہذا confession کا تصور صرف عیسائیت میں ہی نہیں ہے بلکہ سورہ آل عمران، یہ اللہ کے تابعدار بندوں کی خصوصیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہیں :
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور اللہ نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳۵﴾اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔

بلکہ ہم مسلمانوں کا پردہ اور بھرم رکھنے کا تو اللہ نے اتنا بندوبست کیا ہے کہ ہمیں اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے کسی ملا یا عالم دین کے سامنے اعتراف نہیں کرنا پڑتا بلکہ یہ صرف اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کا معاملہ ہوتا ہےز ہاں البتہ حقوق العباد میں اگر کوتاہی ہوئی ہے تو اس کے بارے میں اللہ نے سخت وعید کی ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی کی ہے جب تک وہ انسان خود نہیں معاف کرے گا اللہ بھی معاف نہیں کرے گا بلکہ اسے دنیا اور آخرت میں سزا کا مزا چکھنا ہو گا۔

یہاں تک کہ غیبت جیسا گناہ جسے ہم انتہائی معمولی سمجھتے ہیں جب تک وہ انسان معاف نہیں کرے گا جس کی برائی کی گئی ہے معاف نہیں ہوگا۔

اسے یوں سمجھ لیں کہ جو گھر کمزور اور ذکر الہیٰ کی کمی سے ویران ہو تو چور باآسانی قبضہ کر سکتا ہے لیکن اگر ایمان و عمل کا قلعہ مضبوط ہو تو کائنات کی سرکش قوتیں بھی اللہ کے حکم سے تابع ہوں گی۔

لہذا اگرچہ ان بڑی اور بیماری مصیبت لانے والی روحوں سے نجات کے طریقے ہمیں بتا دیئے گئے ہیں لیکن سب سے پڑا تحفظ اللہ کی رسی کو تھام کے رکھنا خصوصاً شیطانی وصف تکبر اور احساس تفاخر کو اپنے سے دور رکھنا، اور اللہ کا عاجز اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی اور محبت کرنے والا بندہ بن کر رہنا ہے، کیونکہ تمام بیماریوں کی بنیادی جڑ عجب یا high self esteem ہے، جس کے باعث انسان مثل شیطان اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی خیال کرتے ہوئے غصہ، مایوسی، حسد اور دنیاوی خوف کا شکار ہو کر بیمار ہو جاتا ہے۔ لہذا جب ہم شیطانی وساوس سے نجات کے لئے لاحول پڑھتے ہیں تو ایک حدیث کے مطابق اس کا یہ مطلب ہوتا ہے :
حضرت عبدالله بن مسعود رضى الله عنه فرماتے هيں كه "”لاحول ولاقوة الا بالله”” كو ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے سامنے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسکا مطلب جانتے ھو کیا ھے؟؟؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اسکے رسول خوب جانتے ھیں ـ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ھی ارشاد فرمایا اسکا مطلب یہ ھے "”” گناہ سے پھرنے کی طاقت نھیں مگر اللہ کی حفاظت سے اور اللہ کی عبادت کرنے کی قوت نھیں مگر اللہ کی مدد سے.

اللہ ہم سب کو اس دنیا میں بھی اپنا فرمانبردار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، اور آخرت میں بھی صالحین میں شامل کرے۔آمین

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button