Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

قران کریم کی روشنی میں انسانی مسائل اور بیماریوں کا علاج

تحریر : کنول ناصر

قرآن مجید میں جہاں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق ہدایت اور رہ نمائی موجود ہے وہاں کچھ بیماریوں اور مسائل کے علاج اور رہ نمائی یا یوں کہہ لیں کہ تھراپی موجود ہے ضرورت صرف غور کرنے کی ہے۔
آج اس علاج یا تھراپی کی کچھ مثالیں پیش ہیں ۔

سب سے پہلے سورہ آل عمران میں حضرت عیسیٰ کے شفا کے معجزے کا ذکر ہے :
وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۖ اَنِّـىٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۖ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۖ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِىْ بُيُوْتِكُمْ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ (49) 
اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گا (اور وہ کہے گا) بے شک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں تمہیں مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بنا دیتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑتا جانور ہو جاتا ہے، اور مادرزاد (پیدائشی) اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں، اور تمہیں بتا دیتا ہوں جو کھا کر آؤ اور جو اپنے گھروں میں رکھ کر آؤ، (بے شک) اس میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں اگر تم ایماندار ہو۔

اگرچہ زمانہ قدیم سے ہی بری ارواح کو انسان کی بیماری کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا اور ہر قدیم تہذیب میں ان ارواح سے نجات کے طریقے رائج تھے جیسا کہ قدیم مصری، چینی اور شمنزم (جس کا میں نے سابقہ تحریر میں حوالہ دیا ) مگر جو عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو شفا کا علم دیا اس میں جھاڑ پھونک سے ہٹ کر ایک طرف تو مریض سے ہمدردانہ رویہ اختیار کرکے اور دوسری طرف اخلاقی تربیت سے منفی سوچ و عمل خاتمے اور غذائی تبدیلی اور ادویات کے ذریعے انسان کی ذہنی حالت کو تبدیل کرکے مکمل شفا کا حصول یقینی بنایا گیا۔

جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہندی طبیب سے اپنے مکالمے کے دوران فرمایا "میں حار (گرمی) کا علاج بارد (سردی) سے کرتا ہوں۔ تر کا علاج خشک سے کرنے پر حاوی ہوں۔اور ہر کام میں اللہ پر بھروسہ و یقین رکھتا ہوں۔ جو میرے جد امجد رسول اللہ صلعم نے فرمایا اس پر عمل کرتا ہوں۔

لہذا ان تمام امور پر عمل کرتے ہوئے اولین قبطی چرچ میں علاج کا یہ طریقہ رائج تھا کہ سات تیلوں کے امتزاج سے مریض کا علاج کیا جاتا تھا اور anointing یعنی تیل لگانے کے لئے ایک تقریب منعقد کی جاتی تھی جس میں مریض کے رشتے دار اور تعلق دار اس کی صحت کے لیے دعا کرتے تھے۔

مشہور عام حکیم جالینوس بھی حضرت عیسی کے اپتدائی دور کے پیروکاروں میں سے تھا۔ لہذا اس کے علم کی بنیاد پر نبوی اور طب اہل بیت میں موجود اٹانومی آور ادویات کے علم سے استفادہ کرتے ہوئے الرازی اور بولا علی سینا جیسے اہل علم نے طب کے علم کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔

بہرحال فطری طریقہ علاج وہی ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ اور ان کے پیروکاروں کا ہنر تھا۔ اس کے بنیادی طور پر دو اجزا ہیں۔ پہلا ہدایت کے ذریعے منفی جذبات اور اعمال کا خاتمہ، دوسرا دوا اور غذا کے ذریعے اس اختلاط کو متوازن کرنا جس کا غلبہ ان منفی جذبات اور ان کے نتیجے میں مخصوص بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔

لہذا قرآن مجید میں موجود شفا کی مثالوں میں بھی ہمیں وہی طریقہ علاج دکھائی دے گا۔
مثلا سورہ ص کے مطابق جب حضرت ایوب علیہ السلام نے اللہ سے اپنی تکلیف کی فریاد کی”اِذْ نَادٰى رَبَّهٝٓ اَنِّىْ مَسَّنِىَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ (41) (جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور عذاب پہنچایا ہے)۔ تو اللہ تعالی نے ان کی شفا کا انتظام کچھ اس طرح سے کیا:
اُرْكُضْ بِـرِجْلِكَ ۖ هٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ (42) 
اپنا پاؤں (زمین پر) مار، یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے۔
وَوَهَبْنَا لَـهٝٓ اَهْلَـهٝ وَمِثْلَـهُـمْ مَّعَهُـمْ رَحْـمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِـى الْاَلْبَابِ (43) 
اور ہم نے ان کو ان کے اہل و عیال اور کتنے ہی اور بھی اپنی مہربانی سے عنایت فرمائے اور عقلمندوں کے لیے نصیحت ہے۔
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْ ۗ اِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ اِنَّهٝٓ اَوَّابٌ (44) 
اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو کا مٹھا لے کر مار اور قسم نہ توڑ، بے شک ہم نے ایوب کو صابر پایا، وہ بڑے اچھے بندے، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

یعنی کہ ایک طرف اللہ تعالٰی نے شافی پانی کا چشمہ جاری کیا اور دوسری طرف ان کو جو اپنی پاکیزہ بیوی کی طرف سے بد گمانی تھی اس کو ختم کیا۔ کیونکہ روایت کے مطابق احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب عَلَیْہِ وَعَلٰی نَبِیِّنَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی ہیں  کہ آزمائش واِبتلاء کے دور میں  آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت ِیوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں  نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں  زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کر لائی ہیں، اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں  گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، ۱۳ / ۵۲۶)

اسی طرح سورہ یوسف میں حضرت یعقوب کی بینائی لوٹنے کا واقعہ کچھ یوں بیان ہوا ہے جو کہ اپنے بیٹے یوسف کی جدائی میں گریہ کے باعث کھو گئی تھی کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد کا علاج تجویز کیا:
اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِىْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِىْ يَاْتِ بَصِيْـرًاۚ وَاْتُوْنِىْ بِاَهْلِكُمْ اَجْـمَعِيْنَ (93) 
یہ کرتہ میرا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو کہ وہ بینا ہوجائے، اور میرے پاس اپنے سب کنبے کو لے آؤ۔
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْـرُ قَالَ اَبُوْهُـمْ اِنِّـىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ ۖ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ (94) 
اور جب قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی بو پاتا ہوں، اگر مجھے دیوانہ نہ بناؤ۔
قَالُوْا تَاللّـٰهِ اِنَّكَ لَفِىْ ضَلَالِكَ الْقَدِيْـمِ (95) 
لوگوں نے کہا اللہ کی قسم بے شک تو البتہ اپنی گمراہی میں مبتلا ہے۔
فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِيْـرُ اَلْقَاهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْـرًا ۖ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّـىٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّـٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (96) 
پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اس نے وہ کرتہ اس کے منہ پر ڈال دیا تو بینا ہوگیا، کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

یعنی ایک طرف تو انہیں اپنے بیٹے کی طرف سے خوشخبری ملے گئی (یوسف کے غم میں ہی گریہ کے باعث ان کی بینائی کھو گئی تھی) اور دوسری طرف انسانی پسینے کے اجزاء نے دوا کا کام کیا کیونکہ حال ہی میں مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط نے انہی آیات پر تحقیق کر کے انسانی پسینے سے موتیا کے لئے موثر ترین دوا ایجاد کی ہے جسے "قرآن کی دو” کہا جاتا ہے ۔

اسی طرح سورہ فصلت میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر کچھ اس طرح ہے جو مچھلی کے پیٹ میں ایک طویل وقت گزرنے کے بعد زندہ واپس نکلے:
فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِـيْمٌ (142) 
پھر اسے مچھلی نے لقمہ بنا لیا اور وہ پشیمان تھا۔
فَلَوْلَآ اَنَّهٝ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ (143) 
پس اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا۔
لَلَبِثَ فِىْ بَطْنِهٖ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ (144) 
تو وہ اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ سَقِـيْمٌ (145) 
پھر ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔
وَاَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ (146) 
اور ہم نے اس پر ایک درخت بیل دار اگا دیا

حضرت یونس علیہ السلام چونکہ اذن الہی کا انتظار کیئے بغیر اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو کر نکل گئے جس کے باعث مصیبت کا شکار ہوئے اور ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا۔لیکن جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مچھلی کے پیٹ میں انہوں نے اللہ کو پکارا تو اللہ نے انکی فریاد قبول کی۔ لہذا مچھلی نے انہیں اگل دیا۔ اس وقت ان کی حالت نوزائیدہ بچے کی سی تھی۔ اللہ تعالٰی نے انکی صحت یابی کا جو انتظام کیا اس کے متعلق مفسرین لکھتے ہیں :
جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں  کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انہیں مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کدو کا پیڑ اگا دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دہنِ مبارک میں  دے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں  تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں  توانائی آئی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۴ / ۲۷)

اسی طرح سورہ آل عمران کی ان آیات میں غزوہ احد کا ذکر ہے جب مسلمان غالب آ رہے تھے تو اسی دوران انہوں نے مال غنیمت کی طلب میں نبی پاک صلعم کے حکم کا انتظار کیئے بغیر اپنے ہتھیار چھوڑ دیئے، اس لئے انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا جس کے باعث ان وہ مایوسی اور شکستہ دلی کا شکار ہو کئے:” وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّـٰهُ وَعْدَهٝ اِذْ تَحُسُّوْنَـهُـمْ بِاِذْنِهٖ ۖ حَتّـٰٓى اِذَا فَشِلْتُـمْ وَتَنَازَعْتُـمْ فِى الْاَمْرِ وَعَصَيْتُـمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرَاكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۚ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الـدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُـمَّ صَرَفَكُمْ عَنْـهُـمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ (152) 
اور اللہ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کر چکا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے، یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے، پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے، اور البتہ تحقیق تمہیں اس نے معاف کر دیا ہے، اور اللہ ایمانداروں پر فضل والا ہے۔
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوُوْنَ عَلٰٓى اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِىٓ اُخْرَاكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُـوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (153) 
جس وقت تم چڑھے (میدان جنگ سے بھاگے) جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا سو اللہ نے تمہیں اس کی پاداش میں غم دیا بسبب غم دینے کے تاکہ تم مغموم نہ ہو اس (فتح) پر جو ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس (تکلیف) پر جو تمہیں پیش آئی، اور اللہ خبردار ہے اس چیز سے جو تم کرتے ہو۔
پھر آگے کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کیا اور مال دنیا کی طلب کے باعث جو وہ مایوسی اور تکلیف کی کیفیت کا وہ شکار ہوئے اللہ تعالٰی نے غیب سے اس کا کیا علاج کیا:
ثُـمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَـآئِفَةً مِّنْكُمْ ۖ وَطَـآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُـمْ اَنْفُسُهُـمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّـٰهِ غَيْـرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَىْءٍ ۗ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّـهٝ لِلّـٰهِ ۗ يُخْفُوْنَ فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ ۖ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُلْ لَّوْ كُنْتُـمْ فِىْ بُيُوْتِكُمْ لَبَـرَزَ الَّـذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْـهِـمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِـمْ ۖ وَلِيَبْتَلِىَ اللّـٰهُ مَا فِىْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِـيْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (154) 
پھر اللہ نے اس غم کے بعد تم پر چین یعنی اونگھ بھیجی اس نے بعضوں کو تم میں سے ڈھانک لیا، اور بعضوں کو اپنی جان کا فکر لڑ رہا تھا اللہ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کر رہے تھے، کہتے تھے ہمارے ہاتھ میں کچھ کام (اختیار) ہے، کہہ دو کہ سب کام (اختیار) اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے دل میں چھپاتے ہیں جو تیرے سامنے ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں اگر ہمارے ہاتھ میں کچھ کام (اختیار) ہوتا تو ہم اس جگہ مارے نہ جاتے، کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے البتہ (پھر بھی) اپنے گرنے کی جگہ پر باہر نکل آتے وہ لوگ جن پر قتل ہونا لکھا جا چکا تھا، اور تاکہ اللہ آزمائے جو تمہارے سینوں میں ہے اور تاکہ اس چیز کو صاف کردے جو تمہارے دلوں میں ہے، اور اللہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُـمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ حَلِـيْمٌ (155) 
بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا تھا، اور اللہ نے ان کو معاف کر دیا ہے، بے شک اللہ بخشنے والا تحمل کرنے والا ہے۔

ان چند مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ دنیا بھر کے سکالرز کی کتابوں کو خواہ ساری عمر وقت دیں لیکن جو شفا اللہ نے اپنی کتاب میں رکھی ہے، اس کا انسانی علم اور تجربے سے موازنہ ناممکن ہے۔ اللہ ہم سب کو بھی ڈاکٹر عبدالباسط والا ایمان اور بصیرت عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اس کتاب کے دیئے ہوئے علم سے دنیا کو منور کریں اور ان تمام مسائل کا شافی حل مہیا کریں جنہیں سائینس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود نہیں تلاش کیا جا سکا۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button