Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ویمن یونیورسٹی میں جاری کانفرنسز اختتام پذیر ہوگئیں

ویمن یونیورسٹی ملتان میں شعبہ ایجوکیشن اور سائیکالوجی کے زیراہتمام ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنسز اس اعلامیہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئیں کہ تعلیم کے فروغ میں وباء یا کوئی بھی ایمرجنسی صورتحال کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا، مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو آباد رکھا جائے گا، ایسی پالیساں مرتب کی جائیں جس میں کسی بھی ایمرجنسی صورتحال کی صورت میں طلباء اور فیکلٹی کا درس وتدریس کا سلسلہ نہ ٹوٹ سکے ۔

اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ کورونا وباء کی وجہ سے دنیا بھر میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، لیکن ہم اس با ت پر یقین رکھتے ہیں کہ علم کا سفر رکنا نہیں چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کانفرنسز کا سلسلہ جاری رہے گا ، یہ نیٹ ورکنگ علم اور تجربات کے اشتراک کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد تعلیم کے شعبے میں ہونے والی جدید تحقیق، چیلنجز اور امکانات کا کھوج لگانا تھا، تاکہ مستقبل میں ہم درس و تدریس میں ٹیکنالوجی کے استعمال، تعلیم میں کوالٹی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں پر مزید فوکس کر سکیں۔

کورونا یا کسی بھی ناگہانی صورتحال میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، اور اس کےلئے غیر روایتی طریقہ تدریس بھی اپنائے جائیں گے تاکہ طلبا کا تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ نہ سکے، اور تعلیمی ادارے آباد رہیں ۔

اس تین روزہ کانفرنس میں 98 تحقیقی خلاصے ،11 بین الااقوامی اور 87 نشینل مقررین نے شرکت کی۔

سیشن کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی وائس چانسلر(BZU) پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے کہا کہ ملک میں تعلیم و تحقیق کے فروغ کے لیے تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے اساتذہ کو پالیسی سازی میں متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔

سائیکالوجی کانفرنس کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا اس دور میں جہاں دہشت گردی اور عدم برداشت کا راج ہے، انسانی فطرت کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ شعبہ سائیکالوجی عصری تحقیق میں رجحان ساز ہے، اور محققین کو نظم و ضبط میں اکٹھا کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔

جبکہ شعبہ سائیکالوجی کے زیر اہتمام ’’ تعلیم اور کلینیکل سوشل سائیکالوجی ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونےوالی کانفرنس کے اختتامی سیشن میں ماہرین نے تجاویز میں حکومت سے درخواست کی کہ ہسپتالوں ، سکولزاور پالیسی ساز اداروں میں نفسیاتی صحت کے ماہرین کے لیئے خصوصی نشستیں قائم کی جائیں،جبکہ نفسیاتی صحت کے ماہرین کی تربیت کے معیارات بھی وضع کیئے جانے چاہئے۔

کانفرنس میں نفسیاتی صحت کے خصوصی جرنلز کے آغاز کی تجویز پر غورکیا گیا۔

ذہنی، نفسیاتی صحت اور تندرستی سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے جو مجموعی صحت اور تندرستی کو فروغ دیتے ہیں او زندگی میں توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

بعدازں شعبہ سائیکالوجی کے طالبات نے سائیکو ڈرامہ بعنوان "صنفی امتیاز، تناؤ اور سماجی توقعات، ذہنی صحت اور شناخت کے بحران” پیش کئے ، جن کے ججز ڈاکٹر قمر رباب، ڈاکٹر عنبرین خیزان اور اقرا اشرف تھیں ۔

کانفرنس میں طالبات پوسٹر اٹھائے ہوئے

جبکہ پوسٹر مقابلے کے ججز ڈاکٹر رفیعہ رفیق( پنجاب یونیورسٹی), اور ڈاکٹر شاہدہ بتول ( گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی) تھیں۔

اس تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس میں 50 تحقیقی خلاصے اور 11 بین الااقوامی مقررین نے شرکت کی۔

کانفرنس میں مختلف عنوانات پر ورکشاپس کا بھی انعقاد کیا گیا جس کی فوکل پرسن ڈاکٹر اسماء بشیر تھیں ۔

آخر میں کانفرنسز کی شرکا میں سرٹیفکیٹس اور شیلڈ تقسیم کی گئیں ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button