ویمن یونیورسٹی میں زمین کا عالمی دن منایا گیا
ویمن یونیورسٹی ملتان میں زمین کا عالمی دن اس عزم کے ساتھ منایا گیا کہ آلودگی کے خاتمے کے لئے زندگی کے تمام شعبوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، پلاسٹک کااستعمال محدود بنانا ہوگا کہ کینسر جیسے موذی مرض اور زمین کے بنجر پن سے بچا جاسکے، اس سلسلے میں ویمن یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی، انوائرنمنٹل سائنسز اور محکمہ جنگلات کے باہمی اشتراک سے ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا، جس کا عنوان ’’ہماری زمین مقابلہ پلاسٹک‘‘ تھا۔
سیمینار کی مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے خطاب کرتے ہوئے کہ پلاسٹک کی آلودگی ایک عالمی بحران ہے جس کے برے اثرات کئی برس رہتے ہیں، ہر سال، لاکھوں ٹن پلاسٹک کا فضلہ ہمارے سمندروں، دریاؤں اور لینڈ فلز میں ختم ہو جاتا ہے، جس سے سمندری زندگی، ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ پلاسٹک کے تھیلوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹک تک، ان آلودگیوں کی موجودگی ہمارے ماحول کے نازک توازن میں خلل ڈالتی ہے، جس کے نتیجے میں رہائش گاہ کی تباہی، جنگلی حیات میں الجھن اور زہریلی آلودہ ہورہی ہیں، پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک بیگ استعمال ہوتے ہیں اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ان کے استعمال میں سالانہ 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اور جب بھی پلاسٹک بنا ہے چاہے وہ کتنا ہی عرصے پہلا کیوں نہ بنا ہو وہ اب بھی ختم نہیں ہوا بلکہ اسی حالت میں موجود ہے۔ بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ کچرے میں 25 کروڑ ٹن کچرا پلاسٹک کا ہوتا ہے جن میں پلاسٹک بیگ، بوتلیں اور کھانے کی پیکنگز وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اس 25 کروڑ ٹن میں سے 16 کروڑ 30 لاکھ ٹن یعنی 65 فیصد ساحل سمندر تک پہنچتا ہے، یہ شرح بہت خطرناک اور ہمارے ایکو سسٹم کےلئے الارمنگ ہے، ملک بھر میں عوام کو آگاہی دینے کی فی الفور ضرورت ہے، ایک مربوط پالیسی درکار ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے اور ایک بار کی مہم کافی نہیں ہوتی بلکہ پلاسٹک آلودگی کے بارے میں مہم کو وقفے وقفے اور جدید طریقوں سے چلائے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
آرگنائزر ڈاکٹر عدیلہ ہارون اور ڈاکٹر صائمہ نورین نے کہا کہ ہم اپنے سیارے اور اس کے انمول وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے متحد ہیں، اس سال ہماری توجہ سیارہ بمقابلہ پلاسٹک کے اہم مسئلے پر ہے، فاریسٹ آفیسر راشد محمود ،ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات محمد ادریس نے کہا کہ پلاسٹک خالص بائیو ڈیگریڈیبل ہے، یعنی یہ ماحول میں سینکڑوں، اگر ہزاروں نہیں، تو برسوں تک برقرار رہتا ہے۔ نتیجے کے طور پر پلاسٹک کا فضلہ ہمارے ماحولیاتی نظام میں جمع ہوتا ہے، جس سے جنگلی حیات اور ماحولیاتی نظام کو طویل مدتی نقصان پہنچتا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم پلاسٹک کی آلودگی کی بنیادی وجوہات کو حل کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنے سیارے کی حفاظت کے لیے پائیدار حل کے لیے کام کریں۔
بعدازاں عالمی دن کی مناسبت سے پوسٹر سازی کے مقابلے ہوئے، جس میں نمایاں طالبات کو سرٹیفکیٹس سے نوازا گیا ، اس موقع پر واک کی گئی اور شجر کاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے پودے لگائے گئے۔