Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ویمن یونیورسٹی میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا

ویمن یونیورسٹی ملتان میں انوائرمنٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ اور پرائم منسٹر گرین یوتھ مومنٹ کے زیر اہتمام ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا۔

اس سلسلے میں تقریب منعقد ہوئی ، جس کی مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی تھیں۔
اس موقع پر بطور مہمان اعزازی ڈاکٹر محسن نواز , ڈاکٹر زاہد مسعود، ڈاکٹر محمد اسلم ،ڈاکٹر آصف رؤف ، مسٹر خواجہ احسن نے شرکت کی، اس تقریب کی فوکل پرسن ڈاکٹر کوثر پروین تھیں۔

رواں برس ماحولیات کے حوالے سے ’’پلاسٹک آلودگی کا حل ‘‘موضوع رکھا گیا تھا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے 1972 میں ماحولیات کا عالمی دِن قائم کیا تھا، جسے پہلی بار 1974 میں منایا گیا، اور آج تک اس دن کی حیثت کم نہ ہوسکی بلکے ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ، پلاسٹک سے بنی اشیاء ہماری ہوا، مٹی اور پانی سب کو آلودہ کر رہی ہیں۔ بلکہ وہ ہماری غذائی اشیاء کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ پلاسٹک اور اس کی مصنوعات کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔

یہ مسئلہ ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے جس کے حل کے لیے مربوط اور فعال کوششوں کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ورلڈ وائلڈ لائف اور آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو کیسل میں ہونے والی ایک ریسرچ میں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ہر آدمی ہفتے میں تقریباً پانچ گرام پلاسٹک نگل جاتا ہے، ایسے میں پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں، تاکہ زمین کے نظام کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔

پاکستان میں ہونے والی ایک اور ریسرچ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں ایک گرام ریت میں مائیکرو پلاسٹک کے 300 سے زائد ذرات پائے گئے ہیں۔

یہ تعداد آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی خطرے کی علامت ہے۔ سمندر میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں کی خوراک بننے کے بعد فوڈ چین کے ذریعے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔

ان کے مطابق پلاسٹک کے ٹکڑوں سے کیڑے مار ادویات اور زہریلی جڑی بوٹیاں چپکی رہ جاتی ہیں جو کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بنتا ہے۔

پلاسٹک میں شکست و ریخت نہیں ہوتی اور اپنی اصل حالت میں بحال رہتا ہے، جب کہ ڈسپوزیبل پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آ گیا ہے۔

ان کے مطابق ہمیں یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ پلاسٹک چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، ہمیں اس کا استعمال بہت محدود کرنا ہو گا ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فصلوں میں مصنوعی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے استعمال نے ان کے بنیادی اثرات کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں کیسی بھی جگہ سے پینے کے لیے پانی صاف استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ بہت گہرا ماحولیاتی مسئلہ ہے جس پر مناسب تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر پوسٹر سازی ، موضوع کے لحاظ سے ماڈلز اور ڈاکومنٹری بھی بنائیں گئی، جن کو شرکا نے پسند کیا۔

بعدازاں آگاہی ریلی بھی نکالی گئی ، اس موقع پر تمام شعبوں کی چیئرپرسنز بھی موجود تھیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button