Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

انسانی زندگی میں غیبی قوتوں کا کردار

تحریر:کنول ناصر

انسان کی زندگی میں غیبی قوتوں اور مخلوق کا کردار زمانہ قدیم سے ہی ایک اسرار رہا ہے۔ تمام قدیم تہذیبوں کے اثرات میں بیماریوں اور مصیبتوں کو بھگانے کے لئے بد روحوں سے نجات کے لئے منتر اور طریقے ان قدیم دستاویزات کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ مختلف مزاہب میں بھی انسان کی مختلف تکالیف اور مسائل کے تدارک کے لئے روحانی طریقے اور جھاڑ پھونک موجود ہیں ۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اج کے انسان کا لاعلمی کی بنا پر ان کے متعلق عقائد اور طرز عمل انتہا پرستی پر مبنی ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ طبقہ ہے جو اپنی زندگی میں غیر مرئی مخلوق کے کردار کو تسلیم کرتا ہے، اور خوف کا شکار ہے اور دوسری طرف دوسرا عقل پرست طبقہ جو ایسی چیزوں کے وجود سے قطعا انکاری ہے مگر جیسے ہی اس عقل پرست طبقے کی زندگی میں کچھ اس نوعیت کے حالات و مسائل پیش آتے ہیں جن کی کوئی عقلی توجیہہ نہیں پیش کی جا سکتی تو انتہائی پڑھے لکھے اور ماڈرن افراد بھی توہم پرستی کا شکار ہوکر آسیب یا تعلق داروں کی طرف سے جادو کے واہمے کا شکار ہو کر جعلی عاملین کی کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ مذہبی پیشوا بھی اپنے تمام تر علم کے باوجود ایسے افراد کو مطمئن نہیں کر پاتے یا کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔اور یہ کوئی اچھوتا طرز عمل نہیں ہے بلکہ صدیوں سے انسانی فطرت میں شامل ہے کہ عام ڈگر سے ہٹ کر اس کو کوئی متاثر کن چیز اس کے سامنے آئے تو وہ اسے جادو قرار دے کر مطمئن ہو جاتا ہے۔

جیسے اللہ کا آخری کلام جو کفار مکہ کے دلوں پر اثر کرتا تھا اسے فَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ (مدثر 24)” پھر کہا یہ تو ایک جادو ہے جو چلا آتا ہے۔” قرار دے کر ہدایت سے آنکھیں بند کر لیتے تھے۔

اس سے قبل جب بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کے سبب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہہ کر دعا کراتے تھے وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ ﴿الزخرف ۴۹﴾اور وہ کہنے لگے: اے جادوگر! تو اپنے رب سے ہمارے لئے اُس عہد کے مطابق دعا کر جو اُس نے تجھ سے کر رکھا ہے (تو) بیشک ہم ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔

چنانچہ اس موضوع پر ذہنوں میں موجود گرہیں کھولنا انتہائی ضروری تھا اس لئے یہ تحریر غیر مرئی قوتوں کے متعلق ابہام دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے ساتھ اتنی شفقت و محبت کی کہ تمام دوسری مخلوقات کے برعکس اسے عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی بلکہ کائنات کی ہر چیز کو اس کے کسی نہ کسی فائدے کا باعث بنایا بالفاظ دیگر دنیا کی ہر چیز کی تخلیق کا مقصد بالواسطہ یا بلا واسطہ انسان کا فائدہ ہی ہے۔

لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ اسے سوچنے سمجھنے اور اپنا برا بھلا پہچاننے کی صلاحیت دی گئی ہے جس پر اسے بہت فخر ہے اور اسی زعم میں وہ اکثر اپنے خالق اور اس کی قدرت آور احسانات کا بھی منکر ہو جاتا ہےش مگر درحقیقت اس کی عقل اس قدر محدود ہے کہ وہ اپنے برے بھلے کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے یعنی اس کو بعض مقامات اور اوقات پر کسی عمل سے روکا نہ جائے اور مکمل اختیار دے دیا جائے تو وہ نہ صرف اپنی ذات کو بربادی کی طرف دھکیل دے بلکہ دنیا میں بھی اتنی برائی اور بربادی پھیلے کہ تمام نظام درہم برہم ہو جائے۔

: جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے :
وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾

اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے پر چڑھائی اور حملہ کرنے سے نہ ہٹاتا رہتا تو کرہ ارض تباہ ہو جاتا لیکن اللہ اہل عالم پر بڑا مہربان ہے۔: یعنی مختصر الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ خالق اور مخلوق کا تعلق نادان اولاد اور والدین والا ہے جس طرح اولاد کی بھلائی اور غلط راستے سے روکنے کے لئے کچھ مقامات پر والدین کا اولاد پر سختی کرنا اور پابندی لگانا ناگزیر ہوجاتا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالٰی بھی چونکہ اپنی مخلوق سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس لئے اس نے ہمیں راستے سے روکنے کے لئے اس دنیا میں کچھ انتظامات کر رکھے ہیں، خصوصاً اپنے ان بندوں کے لئے جو اس کی راہ پر چل رہے ہوں یا چلنے کے خواہاں ہوں مگر شیطان کے دام میں آجاتے ہوں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن لوگوں کو اور کس طرح روکا جاتا ہے ۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب تمام انسانوں کی روحوں سے عہد الست لیا تھا تو ان میں دو طرح کے لوگ تھے، ایک دائیں ہاتھ والے جو اللہ پر ایمان لانے والے تھے اور دوسرے بائیں ہاتھ والے جو اللہ پر ایمان رکھنے والے نہیں تھے۔

اسی طرح سورۃالواقعہ کے آغاز میں احوال قیامت بتانے کے بعد یوم حشر میں اللہ کے سامنے جو لوگ حاضر ہوں گے ان کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا سبقت والے یعنی انبیاء، اولیاء، تابعین، ائمہ آور وہ صالحین جو اپنے نفس کو مار کر اللہ کی فرمانبرداری میں سبقت لے جاتے ہیں۔ دوسرے دائیں ہاتھ والے یعنی وہ لوگ جن کا حساب کتاب کے بعد نیکیوں کا وزن زیادہ ہو گا۔ اور تیسرے بائیں ہاتھ والے یعنی جو اللہ کے سرکش اور نافرمان ہوں گے۔

اب کائنات کے دیگر امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ کائنات کی نادیدہ قوتوں کا انسانی زندگی میں یہ کردار ہوتا ہے کہ پہلے دو گروہوں یعنی سبقت والوں اور دائیں ہاتھ والوں کی اللہ کے حکم سے تائید و نصرت اور مدد کرنا اور ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تیسرے گروہ یعنی سرکش و نافرمان افراد کی صحبت، تسلط، گمراہ کن عقائد اور ایذا سے بچانا اور ان کی رہائش نمائی کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جو انسان ایک بار اپنے رب کی طرف رجوع کرے تو وہ اس کے لئے کبھی گوارا نہیں کرتا کہ وہ شیطان کے راستے کی طرف مائل بھی ہو۔

اگرچہ کائنات کی بےشمار قوتیں اور نادیدہ مخلوق ایسی ہے جو اللہ کے حکم سے اس کائنات کے مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہے، اور جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے۔ جیسا کہ سورہ المدثر کی آیت نمبر 31 میں ارشاد ربانی ہے :
: وَ مَا یَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ ؕ

اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اسکے سوا کوئی نہیں جانتا۔
[: اسی طرح سورہ الفتح میں فرمایا :
وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۴﴾

اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔

یعنی کہ زمین و آسمان کے تمام لشکر اسی کے ہیں جن کے متعلق اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم قرآن و حدیث اور اولیاء کرام کی راہ نمائی نیز روزمرہ تجربے سے اس کے احکام کو نافذ کرنے والی کچھ مخلوق اور امور ایسے ہیں جن کے متعلق ہمیں محدود آگاہی حاصل ہے۔ مثلا
فرشتے
: اللہ تعالٰی نے اپنی یہ مخلوق کائنات میں مختلف قسم کی ڈیوٹیاں دینے کے لئے ایک دوسرے سے مختلف طرز پر پیدا کی ہے۔ جیسا کہ سورہ فاطر میں بتایا گیا ہے :
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾

سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جنکے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لہذا کائنات کے دیگر امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مومنین کی نصرت و تائید بھی فرشتوں کے ذمہ ہے۔

سورہ حم السجدہ میں ارشاد ہے:
: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(30)

ترجمہ: بیشک جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے پھر (اس پر) ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم نہ ڈرواور نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

اسی طرح قرآن پاک کی بہت سی آیات میں محافظ فرشتوں کا بھی ذکر آیا ہے۔

مثلاً سورہ الرعد میں:
{سَواءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ (10) لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ}

ترجمہ: تم میں سے جو شخص کوئی بات چپکے سے کہے یا پکار کر کہے اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے یا دن میں چلے پھرے یہ سب برابر ہیں۔ہر شخص کی حفاظت کے لیے کچھ فرشتے ہیں اس کے آگے اور پیچھے اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔

اسی طرح فرمایا:
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10)كِرَامًا كَاتِبِينَ (11)يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (12)}
( یقینا تم پر حفاظت کرنے والے عزت دار لکھنے والے مقرر ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں ) الانفطار / 10- 12

اسی طرح قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر ان واقعات کا ذکر ہے جب اللہ تعالٰی نے فرشتوں کے ذریعے انبیاء کرام علیہم السلام کی مدد فرمائی۔
مثلاً ابن کثیر کی بیان کردہ روایات کے مطابق جب نمرود نے ابرہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں ڈالا تو اللہ تعالٰی نے حکم دیا :
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(أنبياء 69)

ہم نے فرمایا اے آ گ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر
تو بادل اور بارش والے فرشتے کے ذریعے آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔

اسی طرح جب حضرت ابرہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے پر چھری چلانے لگے تو فورا اللہ کے فرشتے نے جنت سے مینڈھا لاکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ لٹا دیا۔

اسی طرح سورۃ ہود کی آیات نمبر 79 تا 83 میں ان فرشتوں کا قصہ بیان ہوا ہے جو اللہ کے حکم سے ابرہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری سنانے اور قوم لوط کو عذاب دینے کے لیے نازل ہوئے تھے۔

مزید سورۃ طه میں سامری کے بولنے والا بچھڑا بنانے کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس میں اسنے حضرت موسی علیہ السلام کے استفسار پر بتایا :
قَالَ فَمَا خَطۡبُکَ یٰسَامِرِیُّ ﴿۹۵﴾

موسٰی نے فرمایا کہ اے سامری تیرا کیا حال ہے؟

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُہَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ ﴿۹۶﴾

اس نے کہا کہ میں نے ایسی چیز دیکھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی۔ پھر اسکو بچھڑے کے جسم میں ڈال دیا اور مجھے میرے جی نے اس کام کو اچھا بتایا۔

سامری کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمندر میں خشک راستہ بنانے کے لیے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مارا تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں نے سمندر میں خشک راستہ بنانے کا کام انجام دیا۔

اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیات نمبر 120 تا 127 میں اللہ تعالٰی نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لئے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتے نازل کرنے کی بشارت دی۔

اسی طرح تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جب یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو کنویں کے اندر فرشتوں نے انہیں تھام لیا اور جب تک وہ وہاں رہے ان کا دل بہلاتے رہے۔

ویسے تو اللہ کے نظام کو صرف وہی جانتا ہے تاہم قرآن و حدیث کی ان روایات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چونکہ فرشتے اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کائنات کے امور سر انجام دینے پر معمور ہیں لہذا اللہ کے حکم سے ان قوانین میں تبدیلی لاکر انبیاء و صالحین کو فائدہ پہنچانا بھی فرشتوں کے ہی ذمے ہے۔ ( واللہ اعلم بالصواب)
مردان غیب
سورہ فتح کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اللہ کے آسمانی لشکر سے مراد فرشتے ہیں اور زمینی لشکر سے مراد اہل ایمان ہیں۔

لہذا اہل تصوف بھی رجال الغیب کی حیثیت سے فرشتوں کے ساتھ ساتھ حکم خداوندی سے کائنات کے تکوینی امور کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں۔

یعنی رجال الغیب فرشتے، انسان، جن سب میں سے ہو سکتے ہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مطابق شہداء اور اولیاء کی روحیں بھی اذن ربی سے مردان غیب میں شامل ہو کر کائنات کے امور انجام دیتی ہیں ۔

کیونکہ امام جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں "روحیں اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں۔”

کائنات کے تکوینی امور میں جنگ و امن، عذاب و سزا، بارش و طوفان، فتح و شکست، حکومت و اقتدار اور انسانی معاشرت سے متعلق دیگر انتظامی امور کا طے پانا شامل ہے۔

لہذا روئے زمین کی تمام آبادیوں ویرانوں یہاں تک کہ بحر و بر میں یہ رجال الغیب موجود رہتے ہیں بلکہ ان کی بحکم خداوندی ڈیوٹیاں لگی ہوتی ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام ان مردان غیب کے پیشوا اور سردار ہیں۔

اسی لئے پہلے بیان کردہ سورہ البقرة کی آیت نمبر 251 (وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ ۔۔۔۔۔ ) کی تفسیر میں امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ابدال ہیں، جن کی تعداد چالیس ہوتی ہے ۔
رجال الغیب یا مردان غیب کے بہت سے درجے ہیں، جیسے اقطاب، غوث، ابدال، اخبار، ابرار اور مکتوبان وغیرہ۔
ان مردان غیب کا حوالہ ان احادیث سے ملتا ہے۔

:عن شریح بن عبید قال ذکر أہل الشام عند علي رضي اللہ عنہ وقیل ألعنہم یا أمیر الموٴمنین قال: لا إني سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: الأبدال یکونون بالشام وھم أربعون رجلاً کلما مات رجل أبدل اللہ مکانہ رجلاً یسقی بہم الغیث وینتصر بہم الأعداء ویصرف عن أھل الشام بہم العذاب۔

ترجمہ: حضرت شیح بن عبید تابعی روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اے امیرالموٴمنین! شام والوں پر لعنت کیجیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابدال شام میں ہوتے ہیں، اور وہ چالیس مرد ہیں، جب ان میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو مقرر کردیتا ہے ان (ابدال) کے وجود وبرکت سے بارش ہوتی ہے، ان کی مدد سے دشمنان دین سے بدلہ لیا جاتا ہے۔

جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ وہ انسانوں کی رہ نمائی کرتے ہیں، اسی طرح مردان غیب کی ڈیوٹیوں میں بھی یہ رہ نمائی شامل ہے، اگرچہ روحانی دنیا میں ان کی حیثیت تعویذ اور کلام کے موکلات کی ہوتی ہے، کیونکہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی دیندار انسان کسی برائی کی طرف جیسے ہی بڑھتا ہے کوئی نورانی چہرے والا بزرگ کہیں سے نمودار ہو کر اسے سرزنش کرکے ایک سمت میں غائب ہو جاتا ہے، اور بعد میں ڈھونڈنے پر بھی اس کا سراغ نہیں ملتا۔

ایسا ہی ایک واقعہ سورہ ص میں موجود ہے جب اللہ تعالٰی نے جب اللہ تعالٰی نے حضرت داؤد کو عدل کا حکم دینے کے لئے ان کے پاس مردان غیب کو بھیجا:
وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾

اور اے نبی ﷺ کیا تمہارے پاس ان جھگڑنے والوں کی بھی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے۔

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنۡہُمۡ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰی بَعۡضُنَا عَلٰی بَعۡضٍ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَ لَا تُشۡطِطۡ وَ اہۡدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ ﴿۲۲﴾

جس وقت وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے کہا کہ خوف نہ کیجئے ہم دونوں کا ایک مقدمہ ہے کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہم میں انصاف سے فیصلہ کر دیجئے اور بےانصافی نہ کیجئے گا اور ہمکو سیدھا رستہ دکھا دیجئے۔

اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ ﴿۲۳﴾

بات یہ ہے …
اسی طرح حضرت یوسف اور زلیخا کے واقعے میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ کی "برہان” کو دیکھا تو برائی سے باز رہے

:وَ رَاوَدَتۡہُ الَّتِیۡ ہُوَ فِیۡ بَیۡتِہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَ قَالَتۡ ہَیۡتَ لَکَ ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۳﴾

اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے انکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کر کے کہنے لگی یوسف جلدی آؤ انہوں نے کہا کہ اللہ پناہ میں رکھے وہ یعنی تمہارے میاں تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے میں ایسا ظلم نہیں کر سکتا بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے۔

وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ ۚ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ ؕ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۲۴﴾

اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھت…
تفاسیر کے مطابق جب یوسف علیہ السلام اس خاتون سے بچنے کے لئے بھاگے تو سات مقفل دروازے اللہ کی غیبی طاقت سے کھلتے چلے گئے ۔

یہ تو ذکر تھا اللہ کی غیبی مخلوق کا، دنیا کی تاریخ میں ایسے معجزات بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں جب اللہ نے باطل کی سرکوبی کے لیے اپنی کمزور ظاہری مخلوق سے کام لیا جیسے ابراہہ کی عظیم الشان فوجیوں برباد کرنے کے لیے ایک کمزور پرندے ابابیل کو کنکر دے کر بھیجا، اسی طرح نمرود جس نے حضرت ابرہیم کو آگ کے الاؤ میں ڈالا تھا، کی فوج کو لاتعداد مچھروں کی فوج نے برباد کیا اور آخر میں ایک لنگڑے مچھر نے اس کے دماغ میں گھس کر اس کا خاتمہ دے۔

جادو نظر بد وغیرہ

: ان نادیدہ اثرات کا جتنا خوف لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے اتنا ہی زندگی میں اس کا اثر محدود ہوتا ہے۔ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی زندگی میں کوئی کمی پیشی دکھ بیماری یا رکاوٹ پیش آتی ہے تو کم علمی بے صبری اور اپنی کوتاہیوں سے چشم پوشی کے لئے فورا ہی رشتے داروں اور تعلق داروں پر جادو کرانے یا نظر لگانے کا الزام دھر دیا جاتا ہے، خواہ وہ رکاوٹ یا مسئلہ ہماری اپنی کوتاہی کی وجہ سے پیش آیا ہو یا اللہ کی حکمت کے تحت مردان غیب کے ذریعے کسی غلط حگہ یا لوگوں سے بچانے کے لئے ہماری زندگی میں ایا ہو۔

حالانکہ قرآن پاک میں بارہا یہ بتایا گیا ہے کہ ہر مصیبت انسان کے اپنے غلط طرز عمل کے باعث آتی ہے:مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ-

اے سننے والے! تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تجھے جو برائی…

: وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾

اور ان چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔

یہاں جو کچھ بتایا گیا ہے اس کا متن یہ ہے کہ جادو اللہ تعالٰی نے انسان کی آزمائش کے لئے اتارا کہ کون مصائب پر صبر کرتا ہے، اور کون نفس کے راستے پر چل کر اس کا سہارا لیتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس عمل کی طرف نقصان پہنچانے والے افراد ہی رجوع کرتے ہیں اور زیادہ تر میاں بیوی میں اختلاف پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔تیسرا اللہ کے حکم کے بغیر اس عمل کے ذریعے کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ چوتھا جو انسان ایسے کاموں میں پڑتا ہے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

اگرچہ سفلی عمل کے موکل مردان غیب کے برعکس شیطانی مخلوق ہوتی ہے اور جادو کرنے والے کے لئے اللہ کا یہ قانون ہے: وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى(طه 69)”اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آجائے۔” یعنی وقتی طور پر ان لوگوں کے مقاصد پورے ہو بھی جائیں تب بھی یہ لوگ چونکہ اللہ کے بندوں کو اپنی مرضی پر چلانے اور اس کے حکمتوں بھرے نظام میں مداخلت کرکے اس دنیاوی فلاح یعنی صبر کے ثمرات اور اخروی فلاح یعنی جنت سے اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے سورہ البقرة کی جادو کی وضاحت کرنے والی مذکورہ آیت سے اگلی یعنی کہ آیت نمبر 102 میں ارشاد فرمایا :
وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۳)
"اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو اللہ کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا۔
:

لہذا ایک باعمل اور با ایمان انسان ہونے کے ناطے یہ ایمان رکھیں کہ یہ دنیا کوئی عیش آرام کی جگہ نہیں اور نہ ہی ہر کسی کو سب کچھ ملتا ہے بلکہ یہ تو ایک امتحان گاہ ہے جس میں دکھ، مصیبت، بیماری اور رزق کی کمی پیشی سے امتحان لیا جاتا ہے، اور یہ سب چیزیں اللہ تبارک و تعالٰی اپنی مخلوق کے ذریعے انسانوں میں لیتا دیتا رہتا ہے خواہ وہ مخلوق مردان غیب جیسے نیک ہستیاں ہوں یا سفلی علوم کا سہارا لینے والے شیطان صفت انسان، اس کی مرضی اور حکمت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں گر سکتا کجا کسی کو نقصان یا فائدہ پہنجانا۔

لہذا ہم پر اس کے ہر فیصلے پر صرف صبر واجب ہے۔ سورہ البقرة میں ارشاد ہے :
: وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ

اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دو۔

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ

کہ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

یعنی ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیئے کہ ہر چیز اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے دوسرے الفاظ میں لینے اور دینے کا اختیار صرف اسی کا ہے وہ چاہے تو منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے والے لوگوں کی چالیں، اور کارن انہی پر لوٹا دے لہذا ڈرنا اور نافرمانی سے بچنا بھی اسی سے بنتا ہے ۔

ان شریر انسانوں اور جنوں سے نہیں جو اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔ چنانچہ اگر آپ کے ساتھ ایسی کوئی صورتحال ہو خواہ اس کا واضع ثبوت بھی موجود ہو تو جعلی عاملین کی کمائی کا ذریعہ بننے سے پہلے ایک بار رک کر سوچیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق کے ذریعے مجھے یہ تکلیف یا کمی کیوں دی ہے کہیں میں نے کسی کا حق تو نہیں مارا، کہیں میں مخلوق کی بد دعاؤں کے بعد حاصل ہونے والی حرام کی روزی سے دنیا کو جنت تو نہیں بنانے کی کوشش کر رہا، کہیں میں اپنی نعمتوں کی نمائش کی وجہ سے محروم لوگوں کی نظر بد …

نہ صرف اللہ نے اپنے آخری کلام میں بلکہ رسول خدا نے بھی متعدد بار ایسے لوگوں کو بغیر حساب کتاب کے مغفرت کی بشارت دی ہے:
عمران بن حصین بیان کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا بغير حساب)

"میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔”

لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کیسے لوگ ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(هم الذين لا يسترقون ولا يكتوون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون) (ایضا، ح: 218)

"یہ وہ لوگ ہوں گے جو دم نہیں کرواتے ہوں گے، بدشگونی نہیں لیتے ہوں گے اور نہ داغ لگواتے ہوں گے (یعنی دااغ لگوا کر علاج نہیں کرواتے ہوں گے) اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہوں گے۔”

بیماری
زمانہ قبل از تاریخ کی دریافت شدہ تحریریں بتاتی ہیں کہ ازل سے ہی بیماری کو کچھ مافوق الفطرت بلاؤں اور ارواح کے جسم پر حاوی ہونے کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا لہذا بیماری کے علاج کے لئے دوائیوں کے محدود استعمال کا ثبوت اگرچہ 3100 ق م سے ملتا ہے لیکن بیمار کرنے والی بلائوں اور بد روحوں کو جسم سے نکالنے کے لئے منتر اور جھاڑ پھونک ازل سے ہر تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔

اگرچہ جدید طب کے پیروکار طب کو بری ارواح کے تصور سے نجات دلانے کا سہرا بقراط کے سر باندھتے ہیں لیکن درحقیقت بیمار کرنے والی ارواح کاتصور ختم نہیں ہوا کیونکہ بقراط کے بعد آنے والے مذہب یعنی عیسائیت نے بیماری کو گناہ اور صحت کو روحانی پاکیزگی کے ساتھ منسلک کیا ہے، بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کے باوجود مغربی محققین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تا حال حضرت عیسی علیہ السلام کے بتائے ہوئے شفا کے تصور کے تحت بری ارواح evil spirits پر یقین رکھتا ہے اور اسی تصور کے تحت مختلف بیماریوں کی روحانی وجوہات کی کھوج میں لگا ہوا ہے۔

اسی طرح اسلام میں بھی ہر مصیبت کو انسان کے کسی نہ کسی غلط عمل کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ لہذا بیماری بھی انسان پر آئی ہوئی ایک مصیبت اور تکلیف ہے جس کے ذریعے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔

اس حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے بیماری کو خزاں کے موسم میں درخت سے گرنے والے پتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کسی مسلمان کو بیماری یا کسی اور تکلیف سے تکلیف نہیں پہنچتی لیکن (اس سے پہلے) اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے (خزاں کے دوران) درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ (صحیح البخاری 5667)۔

لہذا یہ بھی عین ممکن ہے کہ امام سیوطی کے قول”ارواح اللہ کا لشکر ہیں” میں ارواح سے soul کی بجائے spirit مراد ہو۔ کیونکہ ان دونوں بالکل الگ الگ تصورات کے لئے عربی میں ایک ہی لفظ یعنی روح استعمال ہوتا ہے جو کہ ابہام پیدا کرنا ہے، کیونکہ جب انسان ایک مخصوص برائی، گناہ، ظلم یا غیر فطری عمل کرنے کا عادی ہو جاتا ہے تو اللہ کے نظام کے تحت اس گناہ سے مطابقت رکھنے والی ارواح evil spirits اسے ایک طرف تو بیمار کرکے اس سرکشی کرنے والے جسم کر کمزور کر دیتی ہیںز اور دوسری طرف یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور ذہنی بیماریوں مثلا شریزوفینیا اور مرگی کی صورت میں اکثر مریض ان evil spirits کا مجسم شکل میں مشاہدہ بھی کرتا ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ خالق کائنات کی چاہت ہے کہ انسان کو ہر گناہ، عیب اور برائی سے بچا لے اور اگر پھر بھی اس میں مبتلا ہو جائے تو اسے گناہوں سے پاک کرکے اپنی جنتوں کا وارث بنائے۔

لہذا کائنات کی ظاہری، پوشیدہ قوتوں پر مشتمل اس کا سارا نظام انسان کی بخشش اور بھلائی کے لئے سرگرم عمل ہے۔ کہیں مردان غیب کے ذریعے اس کی تائید و نصرت اور حفاظت کا بندوبست کرتا ہے تو کہیں جادو یا نظر بد کے ذریعے اسے ان نعمتوں سے محروم کرتا ہے جو اس کی دنیا یا آخرت یا دونوں کی مصیبت کا باعث بن سکتی ہیں، اور اگر وہ گناہ اور نافرمانی کا عادی بن جاتا ہے تو ارواح کے ذریعے اسے گناہوں سے ایسے پاک کر دیتا جیسے وہ آدھی پیدا ہوا ہو۔

اللہ ہم سب کو مصائب پر صبر کرنے والا، نعمتوں پر شکر کرنے والا اور آخرت کی ابدی زندگی کو دنیا کے وقتی عیش پر فوقیت دینے والا اپنا تابعدار بندہ بنائے۔
آمین

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button