زکریا یونیورسٹی : مادری زبان ؛ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں سیمینار
مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر شعبہ سرائیکی ، سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں پروفیسر ڈاکٹر نسیم اختر کی زیر نگرانی سیمینار کا نعقاد کیاگیا، سیمینار کے مہمان خصوصی معروف دانشور محمد حفیظ خان تھے، جبکہ چیئرمین شعبہ اسلامیات پروفیسر ڈاکٹر الطاف لنگڑیال نے تقریب میں بطور مہمان اعزاز شرکت کی۔
تقریب میں شرکت کرنے والوں میں شعبہ کے اساتذہ ، طلباء و طالبات ، مقامی دانشور ، سکالرز اور شعبہ کے فکیلٹی ممبران نے بھرپور کوشش کی۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ تلاوت قرآن کی سعادت محمد محسن نے حاصل کی۔ تقریب کی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے طاہرہ فردوس نے نعت رسول مقبول پیش کی۔ محمد اسامہ نے سرائیکی صوفیانہ کلام ترنم میں گا کر شرکاء محفل کو محظوظ کیا۔
تقریب سے ابتدائی خطاب کرتے ہوئے وقار اسلم کا کہنا تھا کہ مادری زبان انسان کی پہچان کا سسب بنتی ہے اور انسان کے مابین بہتر ابلاغ کا سبب بھی، شعبہ کے سکالر عتیق الرحمان قریشی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مادری زبان ہی وہ زبان ہے جس کی مدد سے بچہ حصول علم کے مراحل کو زیادہ بہتر طریقے سے طے کر سکتا ہے۔
شعبہ کے استاد پروفیسر ملک عمار یاسر کھاکھی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مادری زبان کی اہمیت پر زور دیا ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص اپنے جذبات ، خیالات اور احساسات کا اظہار اپنی مادری زبان میں بہتر اور مؤثر انداز میں کرسکتا ہے۔ مادری زبان کسی بھی شخص کے لے سب سے معتبر زبان ہوتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اختر بخاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان انسانی جبلت ہے ، فرد کی زبان کا انکار اس کے وجود کا انکار ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کی روایت نہیں ہوسکتا۔
پروفیسر محمد عارف رجوانہ کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ماں بولی کی اہمیت سے انکار اپنے وجود کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ دنیا میں ان قوموں نے زیادہ ترقی کی ہے جن قوموں نے اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں ابتدائی تعلقیم دی ہے۔
پروفیسر مختیار حسین شاہ صاحب نے زبان کی پرموشن کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے زبان میں تراجم کیںاہمیت پر زور دیا ان کا کہنا تھا کہ جب مادری زبان کے تراجم دوسری زبانوں میں ہوتے ہیں تو مادری زبان کی ادبیات کا تعارف پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب دوسری زبانوں کے ادبیات کے تراجم مادری زبان میں ہوتے ہیں تو مادری زبان میں تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی عمل انگیزی آتی ہے اور اس سے زبان زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور زبان کی عمر دراز ہوتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عذرا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عربی اور سرائیکی زبان کی لسانی اشتراکیت سے متعلق گفتگو کی۔ پروفیسر الطاف خان لنگڑیال نے اظہار خیال کرتے ہوئے سرائیکی ، فارسی اور عربی زبان کی اشتراکیت اور مادری زبان کی اہمیت و ضرورت پر دیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی محمد حفیظ خان کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے جس دور میں سرائیکی زبان میں لکھنا شروع کیا تھا اس وقت سرائیکی زبان بولنا جرم تصور کیا جاتا تھا۔
ہم نے سرائیکی زبان کی ترویج اور ترقی کےلیے جو عذاب دیکھے ہیں آج سرائیکی زبان اور سرائیکی ثقافت کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی ہوتی۔ مادری زبان سے محبت ایک فطری عمل ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ دوسری زبانوں اور زبان کے بولنے والوں کو تحقیر کا نشانہ ہر گز نہیں بنانا چاہیئے میں نا تو ذاتی طور پر ایسا کوئی عمل سرانجام دیتا ہوں اور نا ہی ایسے کسی عمل کی حمایت کرتا ہوں۔ زبان کی ترقی کےلیے ضروری ہے کہ زبان میں نثر تخلیق کی جائے اور زبان کی ادبیات کے دوسری زبانوں میں تراجم کیے جائیں۔
تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم اختر نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا اور زبان کے فروغ اور 21 فروری کے دن کے تاریخی پس منظر کو بھی شرکاء محفل میں رکھا۔
سیمینار کے آخر میں ڈاکٹر نسیم اختر نے مہمانان ، اساتذہ ، طلباء و طالبات اور شرکاء کانفرنس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بہترین کانفرنس کے انعقاد میں معاونت پر شعبہ کے تمام فکیلٹی ممبران کے کردار کو بھی سراہا۔