Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

ٹائپ 2 ذیابیطس | روحانی معنی، اسباب اور علاج

تحریر: کنول ناصر

اپنی سابقہ تحریروں میں قارئین کی توجہ میں نے اس حقیقت کی طرف دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم جس نوعیت کی خوراک استعمال کرتے ہیں اس کا توازن بگڑ جانے سے چار میں سے کسی ایک مخصوص اختلاط کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جونکہ طب الائمہ کے مطابق انسان کے مختلف اعضاء اس کے مختلف جذبات سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے اس مخصوص اختلاط کے غلبے کے نتیجے میں انسان کے جذبات اور اعمال پر جو منفی اثر پڑتا ہے وہ مخصوص بیماریوں اور مسائل کا باعث بنتا ہے۔

لہذا اسی سلسلے میں قارئین کی آگاہی کے لیے بلغاریہ کیذن کی مختلف بیماریوں پر مضامین کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں جدید طبی کے ساتھ ساتھ روحانی نقطہ نظر بھی موجود ہے ۔

ذیابیطس کے تمام کیسز میں سے 90 فیصد ذیابیطس ٹائپ 2 کا ہوتا ہے، اور یہ عام طور پر 40 سال کی عمر کے بعد نشوونما پاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے "بالغوں میں شروع ہونے والی ذیابیطس” کہا جاتا ہے۔ یہ خون میں چینی کی اعلی سطح کی طرف سے خصوصیات ہے۔

ٹائپ 2 ذیابیطس ٹائپ 1 ذیابیطس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور واقعی ایک بالکل مختلف بیماری ہے۔

یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے موٹے مغربی معاشرے میں صحت عامہ کے مسائل میں سے ایک ہے۔

ریاست ہائے متحدہ میں، 100 ملین سے زیادہ بالغ افراد اب ذیابیطس یا پری ذیابیطس کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال ذیابیطس کے 1.5 ملین نئے کیسز کی تشخیص ہوتی ہے۔ برطانیہ میں، ایک اندازے کے مطابق 12.3 ملین افراد ٹائپ 2 ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے میں ہیں۔

سال 2020 تک، دنیا بھر میں 250 ملین سے زائد افراد متاثر ہوں گے، جس کے نتیجے میں کافی مالی بوجھ پڑے گا، صرف امریکہ میں سالانہ 100 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، ذیابیطس 2015 میں ریاستہائے متحدہ میں موت کی 7ویں بڑی وجہ تھی۔

شوگر لیول کے لیے خون کی جانچ کرکے ذیابیطس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ رات بھر روزہ رکھنے کے بعد صبح خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

ٹائپ 2 ذیابیطس کی علامات:
بار بار پیشاب کرنے کی ضرورت؛
زخم جو مندمل نہیں ہوتے؛
بہت زیادہ وقت پیاسا رہنا؛
انفیکشنز، خاص طور پر خمیر یا کوکیی انفیکشن کے لیے حساسیت میں اضافہ۔

ذیابیطس mellitus کی وجوہات اور خطرے کے عوامل:
جب ہمارا کھانا ہضم ہو جاتا ہے تو گلوکوز ہمارے خون میں داخل ہو جاتا ہے۔

ہمارے خلیے نشوونما اور توانائی کے لیے گلوکوز کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن گلوکوز ہمارے خلیات میں انسولین کے موجود ہونے کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا (انسولین ہمارے خلیوں کے لیے گلوکوز لینے کو ممکن بناتی ہے)۔

کھانے کے بعد خون میں گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے اور لبلبہ کو ہارمون انسولین بنانے اور خون کے دھارے میں چھوڑنے کے لیے متحرک کرتا ہے۔

لیکن اس حالت میں مبتلا افراد میں، جسم یا تو اس ہارمون کو پیدا نہیں کر سکتا یا اس کا صحیح جواب نہیں دے سکتا۔

اس کے بغیر، گلوکوز خلیوں میں نہیں جا سکتا، اور اس لیے یہ خون کے دھارے میں رہتا ہے۔ اس لیے خون میں شوگر کی سطح معمول سے زیادہ رہتی ہے۔

انسولین مزاحمت کی وجہ
انسولین کو گلوکوز میں داخل ہونے سے کیا روکتا ہے؟ یہ موٹا ہے۔ Intramyocellular lipids ، یا ہمارے پٹھوں کے خلیوں کے اندر موجود چربی۔

خون کے دھارے میں چربی پٹھوں کے خلیے کے اندر جمع ہو سکتی ہے اور زہریلے فیٹی ٹوٹنے والی مصنوعات اور آزاد ریڈیکلز بنا سکتی ہے جو انسولین سگنلنگ کے عمل کو روک سکتی ہے۔

جب ایسا ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارے خون میں انسولین کتنا ہی ہارمون ہے، یہ گلوکوز کے دروازے نہیں کھول سکے گا۔ جس کی وجہ سے خون میں شوگر کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

سیلولر چربی میں اضافہ نہ صرف ایک معصوم راہگیر ہے بلکہ اس میٹابولک بیماری کو فروغ دینے کا ایک بنیادی عنصر ہے۔

سیلولر چربی کی غیر معمولی اعلی سطح انزائمز کی ایک سیریز کو چالو کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انسولین کے عمل میں شامل کلیدی سبسٹریٹس کی مالیکیولر ساخت بدل جاتی ہے، جس سے گلوکوز کی نقل و حمل اور میٹابولزم متاثر ہوتا ہے۔

قسم 2 ذیابیطس میلیتس کی روحانی وجوہاتذیابیطس
بیماری کی روحانی وجہ جذباتی تنہائی اور زندگی میں مٹھاس کی کمی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے جسم شوگر کو سنبھال نہیں سکتے کیونکہ وہ زندگی کی مٹھاس سے جڑ نہیں سکتے۔ لہذا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ "فکر کرنا چھوڑ دیں اور خوش رہیں۔”

روک تھام
غذائیت
پہلا قدم یہ ہے کہ جانوروں سے حاصل کردہ مصنوعات سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس سے تمام حیوانی پروٹین اور چربی ختم ہوجاتی ہیں۔

دوسرا مرحلہ شامل سبزیوں کے تیل سے بچنا ہے۔

مثال کے طور پر، پودوں پر مبنی غذا کی پیروی کرنے والے افراد میں ذیابیطس کا پھیلاؤ نسبتاً کم ہے، اور ایسی خوراک کا استعمال کرتے ہوئے کلینیکل ٹرائلز نے گلیسیمک کنٹرول اور قلبی صحت میں بہتری ظاہر کی ہے۔

جسمانی ورزش
ورزش آپ کے خون میں گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے اور اگر وہ بہت زیادہ ہو جائے تو اسے کم کرنے کا ایک بہترین اور مؤثر طریقہ ہے۔

جدید زندگی کی وجہ سے، ہر روز جسمانی طور پر متحرک رہنے کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔

اپنے دن کے دوران زیادہ جسمانی سرگرمی کی مشق کرنا ان سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے جو آپ اپنی ذیابیطس کو سنبھالنے اور اپنی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کے لیے کر سکتے ہیں۔

مشورہ – ذیابیطس کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے لیے مزاحمت اور ایروبک ورزش دونوں اہم ہیں۔

سونا
نیند جسم کو آرام اور مرمت کا وقت دیتی ہے اور اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سیکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ نیند کی کمی اور انسولین کے خلاف مزاحمت کا تعلق ہوسکتا ہے۔

وہ افراد جو باقاعدگی سے نیند کی کمی محسوس کرتے ہیں وہ دن بھر زیادہ تھکاوٹ محسوس کریں گے اور زیادہ تر غذائیں کھانے کا امکان زیادہ ہوگا۔

تمباکو نوشی چھوڑتمباکو نوشی بند کرو
تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد زیادہ ذیابیطس ہونے کا امکان ہوتا ہے، اور بھاری تمباکو نوشی کرنے والوں کو اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

مزید برآں، ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا خطرہ روزانہ پینے والے سگریٹوں کی تعداد کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔

شراب
الکحل خون میں گلوکوز کی سطح کو بڑھنے یا گرنے کا سبب بن سکتا ہے، اس پر منحصر ہے کہ آپ کتنا پیتے ہیں۔

مزید برآں، الکحل آپ کے جگر کی گلوکوز پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کی بھوک کو تیز کرتا ہے، جو آپ کو زیادہ کھانے کا سبب بن سکتا ہے اور آپ کے بلڈ شوگر کے کنٹرول کو متاثر کر سکتا ہے۔

کیفین
کیفین ہر فرد کو مختلف طریقے سے متاثر کرتی ہے۔

اگر آپ کو ذیابیطس ہے یا آپ اپنے خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تو آپ کی خوراک میں کیفین کی مقدار کو محدود کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

شفا یابی کے اثبات
میں اپنی زندگی کے ساتھ مکمل طور پر آرام دہ ہوں۔
میرا بلڈ شوگر متوازن ہے۔
میرے جسم کا ہر خلیہ صحت مند ہے اور صحت کو پھیلاتا ہے۔
میں ہمیشہ صحیح کھانے کو یقینی بناتا ہوں۔
میں گہری سانس لیتا ہوں اور ہر سانس مجھے توانائی بخشتا ہے۔
میں تندرست، مکمل اور صحت مند ہوں۔

اب تک میں نے جتنے مغربی مفکرین کی ذیابیطس کے متعلق ریسرچ کا مطالعہ کیا ہے ان سب میں یہی روحانی وجہ زندگی میں مٹھاس کی کمی اور جذباتی تنہائی بیان کی گئی ہے۔ مگر اس مٹھاس کی کمی کی وجوہات کیا ہیں اور خاتمہ کس طرح ممکن ہے ان امور کی وضاحت صرف اسلامی روحانی نقطہ نظر سے ہی ممکن ہے۔
سب سے پہلے قرآنی آیات کی روشنی میں، میں نے وضاحت کی تھی کہ چونکہ شیطان کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا تکبر ہے لہذا شیطانی ارواح اس انسان پر مسلط ہو کر اسے کسی مستقل بیماری میں مبتلا کرتی ہیں جس میں high self estate یعنی عجب کے باعث چارخصوصیات یعنی جھوٹ، ناشکری، اللہ کے ذکر سے دل چرانا اور سزا جزا پر عقیدہ نہ رکھنے کی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں۔
آپ رہا یہ سوال کہ زندگی کی مٹھاس کم ہونے یا یوں کہہ لیں کہ یاسیت طاری ہونے کا کیا محرک ہے؟ اگر غور کریں تو سورہ آل عمران کی ان آیات میں اس کا جواب موجود ہے:
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّـٰهُ وَعْدَهٝ اِذْ تَحُسُّوْنَـهُـمْ بِاِذْنِهٖ ۖ حَتّـٰٓى اِذَا فَشِلْتُـمْ وَتَنَازَعْتُـمْ فِى الْاَمْرِ وَعَصَيْتُـمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرَاكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۚ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الـدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُـمَّ صَرَفَكُمْ عَنْـهُـمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ (152)
اور اللہ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کر چکا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے، یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے، پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے، اور البتہ تحقیق تمہیں اس نے معاف کر دیا ہے، اور اللہ ایمانداروں پر فضل والا ہے۔

اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوُوْنَ عَلٰٓى اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِىٓ اُخْرَاكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُـوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (153)
جس وقت تم چڑھے (میدان جنگ سے بھاگے) جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا سو اللہ نے تمہیں اس کی پاداش میں غم دیا بسبب غم دینے کے تاکہ تم مغموم نہ ہو اس (فتح) پر جو ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس (تکلیف) پر جو تمہیں پیش آئی، اور اللہ خبردار ہے اس چیز سے جو تم کرتے ہو۔

ان آیات میں غزوہ احد کا ذکر ہے جب مسلمان پہلے غالب آ رہے تھے اور پھر جب انہوں نے مال غنیمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ اس کی طرف بڑھے اور حضور اکرم صلعم کے حکم کا انتظار کیے بغیر تلواریں چھوڑ دیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

لہذا اگلی آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا ہے اس غلط عمل یعنی مال دنیا کی طلب کی پاداش میں انہیں غم یہ غم کی کیفیت دی گئی۔

ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا کی طلب انسان کو ہمیشہ بے سکون اور مغموم رکھنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اسے جتنے بھی دنیا کے لوازمات اور تعیشات حاصل ہو جائیں اس کی طلب کبھی پوری نہیں ہوتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
(من لھج قلبہ بحب الدنیاالتاط قلبہ منھابثلاث:ھمّ لایغنیہ، ومرض لایترکہ،وأمل لایدرکہ)(٣)(١)بحارالانوار ج ٧٧ ص ١٨٨ ۔(٢)میزان الحکمت ج٣ص٣١٩۔(٣)شرح نہج البلاغہ ابی الحدیدج١٩ص٥٢،بحارالانوار ج٧٣ص١٣٠۔
”جس شخص کا دل دنیا کی محبت کا دلدادہ ہوجائے اسکا دل تین چیزوں میں پھنس کررہ جاتا ہے ۔ ایسا غم جس سے افاقہ ممکن نہیں ایسی بیماری جو اسے کبھی نہ چھوڑے گی ایسی آرزو جسے وہ کبھی نہیں پاسکتا”
اسی طرح سورہ التكاثر میں بھی یہی حقیقت کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے: اَ لْـهَـاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) (تمہیں کثرت کی طلب نے غافل کر دیا۔)حَتّـٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2)( یہاں تک کہ قبریں جا دیکھیں۔)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے لوازمات کی کثرت کی طلب پیدا کیسے ہوتی ہے؟

اگر مریضوں کی کیس ہسٹری کو دیکھا جائے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنے اردگرد کے لوگوں کی طرف سے مسلسل تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح ٹائپ ون میں بھی بچوں کو شروع سے ہی والدین اور دوسرے لوگوں کے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کو اپنا ماحول انتہائی ناگوار لگنے لگتا ہے، انسانوں سے شدید نفرت ہو جاتی ہے اور اس کے لئے کھانے کی رغبت بڑھ جاتی ہے خصوصا کاربوہائیڈریٹس اور میٹھے ذائقے دار کھانوں کی۔ لہذا اس کے لئے زندگی کی لذت اور انجوائے منٹ کھانوں اور دیگر تعیشات اور لوازم میں ہی رہ جاتی ہے جن کی کمی یا کمی کا خوف اسے شدید غصے اور رنج میں مبتلا کر دیتا ہے اور چونکہ اس کی زندگی میں انسانوں اور انسانیت کی گنجائش ختم ہو چکی ہوتی ہے اس لئے وہ ان چیزوں کے حصول کے لئے دوسرے انسانوں کو استعمال کرنے، ان کا استحصال کرنے اور انہیں تکلیف پہنچانے سے نہیں ہچکچاتا۔ ٹائپ ٹو کی اس طرح بھی وضاحت کی جائے سکتی ہے کہ کھانے پینے اور تعیشات جس انسان کی کمزوری ہوں تو وہ ان لوگوں کی عزت کرے گا اور اچھا بن کر دکھائے گا جہاں سے اسے فائدہ پہنچنے کی توقع ہو یعنی کہ ذیابیطس جدید لائف سٹائل غیر صحت بخش جدید برانڈد خوراک اور پروفیشنلزم کا تحفہ ہے۔

بہتری کی طرف آنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ قرآن و سنت پر اسطرح عمل کیا جائے کہ جس طرح عمل کرنے کا حق ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین صرف کلمہ شہادت، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی ادائگی کا نام ہے لہذا جس نے ایسا کر لیا تو گویا اس نے حق ادا کر دیا لیکن درحقیقت اسلام ایک مکمل اور فطری ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کی ہدایت اگرچہ قرآن سے ملتی ہے لیکن اس ہدایت پر عمل سنت کے بغیر ممکن نہیں۔

کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر قرآن نے کہا "لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٓ ٖ اَزْوَاجًا مِّنْـهُـمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْـهِـمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ (الحجر 88) اور تو اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھ جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو استعمال کے لیے دے رکھی ہیں اور ان پر غم نہ کر اور اپنے بازو ایمان والوں کے لیے جھکا دے۔” تو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم جو اگر چاہتے تو دنیاوی آسائشوں کے ساتھ بادشاہوں جیسی زندگی بسر کر سکتے تھے مگر انہوں نے پر تعیش زندگی کی بجائے اللہ کی رضا والی فقروفاقہ کی زندگی کو چنا اور جو کچھ بھی ان کے پاس آیا اسے اسلام اور اہل ایمان کے لئیے وقف کر دیا۔ اسی طرح جب قرآن میں جب اللہ نے مومنوں کو ہدایت کی "يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُـوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ (البقرة 153) (اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔) تو انہوں نے ہر حال میں صلوۃ قائم کرکے اور پیٹ پہ پتھر باندھ کر ایسے صبر کے ساتھ رہ کر دکھایا جب چار چار دن ان کے پیٹ میں ایک روٹی کا لقمہ بھی نہ گیا ہو۔پھر جب کلمہ حق کہنے پر اپنے پرائے آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کو ہر طرف سے تضحیک اور طعن کا سامنا تھا تب اللہ نے آپ پر وحی نازل کرکے کچھ اس طرح کے الفاظ میں تسلی دی "فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ (94) سو تو کھول کر سنا دے جو تجھے حکم دیا گیا ہے اور مشرکوں کی پروا نہ کر۔اِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَـهْزِئِيْنَ (95) بے شک ہم تیری طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کے لیے کافی ہیں۔اَلَّـذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّـٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ (96) اور جو اللہ کے ساتھ دوسرا خدا مقرر کرتے ہیں سو عنقریب معلوم کر لیں گے۔وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ (97) اور ہم جانتے ہیں کہ تیرا دل ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔فَسَبِّـحْ بِحَـمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السَّاجِدِيْنَ (98) سو تو اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ کیے جا اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو. (الحجر)” اور "مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُـوْنٍ (2) آپ اللہ کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں۔وَاِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَيْـرَ مَمْنُـوْنٍ (3) اور آپ کے لیے تو بے شمار اجر ہے۔وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ (4) اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔فَسَتُـبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ (5) پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔بِاَيِّـكُمُ الْمَفْتُـوْنُ (6) کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے۔اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْـلِهٖۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (7) بے شک آپ کا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکا ہے، اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔فَلَا تُطِــعِ الْمُكَذِّبِيْنَ (8) پس آپ جھٹلانے والوں کا کہا نہ مانیں۔(القلم)” تو پھر خواہ اللہ کے پیارے نبی کو لوگوں نے پتھر مار مار کر لہولہان کیا یا مقاطعہ کرکے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور کیا ان کی استقامت میں نہ کمی آئی اور نہ وہ مایوس ہو کر کلمہ حق سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی مقتدر لوگوں سے مرعوب ہو کر اور ان کا اثر قبول کرکے کلمہ حق پر سمجھوتہ کیا۔

لہذا اگرچہ آپ ایک اچھے مسلمان ہونے کے ناطےصوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور آپ کا دل اللہ اور اسکے رسول کی محبت سے لبریز ہے لیکن آپ اپنی اس کمزوری پر قابو نہیں پا رہے کہ آپ لوگوں کے کھانے پینے اور لائف سٹائل سے انتہائی متاثر ہوتے ہیں، اور وہ سب لوازمات خود حاصل کرنا انتہائی ضروری سمجھتے ہیں خواہ اس کے لئے آپ کو کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ مزید آپ کے ذہن میں یہ بھی ہے کہ لوگ میری صرف اسی صورت میں عزت کریں گے جب میں نے کسی بھی طریقے سے پیسہ حاصل کرکے اپنا لائف سٹائل بہترین لیا۔ اسی سوچ کے زیر اثر آپ لوگوں سے بھی زیادتی کر لیتے ہیں، پیسہ کمانے کے لئے ناجائز ذرائع کو استعمال کرنا بھی غلط نہیں سمجھتےاور سنت سے بھی ہٹ چکے ہیں جوکہ انتہائی سادہ زندگی گزارنے، دوسروں کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھنے اور بھوک چھوڑ کر نیز فطری، سادہ اور صحت بخش غذاؤں کے استعمال کی تاکید کرتی ہے۔

لیکن چونکہ آپ اللہ کے آگے جھک کر مغفرت کے طالب ہوتے ہیں لہذا اس نے اپ کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے یہ بیماری پیدا کی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: میری عزت اورجلال کی قسم!میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتا ہوں، اسےدنیاسے نہیں نکالتا، یہاں تک کہ بدنی بیماری اوررزق کی تنگی میں مبتلاکرکے اس کی گردن پر موجود گناہوں سے اس بندے کو پاک و صاف نہ کردوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض:۱۵۸۵)

اسی طرح ابوسعیدخدری ؓ اورحضرت ابوہریرہ ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کوجو تھکان، بیماری،غم ورنج، کوئی تکلیف اورغم حتیٰ کہ کانٹابھی چبھتاہے،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب المرضی:۵۶۴۱)

آپ کی اس کمزوری اور بہت سے دوسرے مسائل کا قرآن ایک ہی محرک اور حل بتا رہا ہے وہ یہ کہ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا (7) اور قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی۔ فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا (8) پھر سمخھ دی اس کو بد کاری کی اور بچ کر چلنے کی۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اسے پاک کر لیا۔وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10) اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اسے خاک میں ملا دیا۔

یعنی اللہ تعالٰی ہر انسان کے اندر اپنی اپنی نوعیت کی نفسانی خواہشات رکھی ہیں لیکن کامیاب صرف وہی ہے جس نے اس پر قابو پانے لیا۔

ضبط نفس یا self control کامیابی کی وہ کلیدی ہے جسے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے بتایا اور اس کے بعد دنیا کے تمام اہل دانش بشمول مغربی اہل علم نے اس کی تائید کی۔ مثلا Grenville Keiser کے بقول “By constant self discipline and self-control you can develop greatness of character.”
اس مقصد کے لئے سب سے پہلے تو اپنے اندر تحمل پیدا کریں جذباتیت خصوصا غصے کا اظہار ایک دم مت کریں۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں جو مقابلے جیت لے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ (صحیح البخاری)۔

لہذا یہ ذہن میں رکھیں کہ فوری طور پر غصے میں انسان سے ایسے افعال سرزد ہو جاتے ہیں خود بعد ازاں پچھتاوے کا باعث بنتے ہیں۔

ہم میں سے تقریبا ہر کوئی اپنی دن بھر کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر دو سے تین گھنٹے اپنی ڈیوائیسز پر اکثر بے کار میں سوشل میڈیا کو دیتا ہے۔ اگر اس وقت کا صحیح استعمال کریں تو بہت سے موٹیویشنل سپیکرز کی ویڈیو دستیاب ہیں جو کہ overreaction کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے رد عمل یا reaction کو تھوڑا سا delay کرنے کی مشق کریں تو بہتری کی صورت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح آپ کو سوچنے اور نظرثانی کرنے کا موقع مل جائے کا۔ بنیادی طور پر احادیث میں بتائے گئے غصے کو کنٹرول کرنے کے طریقوں یعنی پانی پی لینا،یا کھڑے ہوں تو بیٹھ جانا یا لاحول پڑھ لینے میں بھی یہی مصلحت ہے کہ غصے کی اس لہر اور عمل کے دوران تھوڑا وقفہ پیدا کیا جائے۔

دوسرا اپنی غذائی عادات کی اصلاح کریں بلکہ غذائی تبدیلی پہلے نمبر پر آتی ہے۔ کیونکہ آپ نے ان غذائوں کو اپنی زندگی سے نکالنا ہے جو غصہ اور جنوں کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کی جگہ مسنون اور اپنے علاقے کی روایتی سادہ غذا کی طرف آئیں۔

اپنے سابقہ مضمون میں، میں نے سورہ بقرہ کی اس آیت کا حوالہ دیا تھا: كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّـٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (60) (اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو۔) یعنی صرف وہی اشیا کھائو جو اللہ نے کھانے کے لئے پیدا کی ہیں۔ دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ کولڈ ڈرنکس، پریزروڈ سنیکس، چینی نیز آبادی کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جینیاتی طریقوں سے ایجاد کردہ خوراک جیسے پولٹری، گندم، پیوند کاری والے ام کاربوہائیڈریٹس اور ایسے کیمیکز سے بھرپور ہوتے ہیں جو نا صرف ذیابیطس بلکہ دیگر بہت سی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں جو انسان میں غصہ اور جنوں بھر دیتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اسے "فساد مچانے والا” بنا دیتی ہیں۔

لہذا صحتیابی کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ کھانے پینے کے معاملے میں self control کریں اور صرف اس سادہ اور فطری غذا کو اپنائیں جو اللہ نے ہمارے کھانے کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان کی بنائی ہوئی غیر فطری خوراک کی طرف ذائقے کی وجہ سے مائل ہونا چھوڑ دیں۔

روایتی طور پر ہمارے ہاں گندم کی روٹی روزانہ نہیں کھائی جاتی تھی جیسا کہ ہم لوگ آجکل کھا رہے ہیں بلکہ کبھی جو ،کبھی باجرے، کبھی مکئی اور کبھی بیسن کی روٹی لہسن مرچ دھنیا اور ادرک وغیرہ کی چٹنیوں، پیاز اور لسی وغیرہ کے ساتھ کھائی جاتی تھی مزید اچار اور سرکے کا استعمال بھی عام تھا بلکہ سرکے کے استعمال کی طب اسلامی میں بھی تاکید ہے۔

اسی طرح کدو اور جو کے دلیے کو بھی نبی پاک نے پسند فرمایا یہاں تک کہ آنحضور نے جو کی روٹی اور گوشت کو ایسی نعمت قرار دیا جس کا سوال ہوگا۔
تیسرے نمبر پر اپنے آپ میں شعوری طور پر یہ تبدیلی لانے کی کوشش کریں کہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات اور لوگوں کے طرز عمل سے متاثر ہونا اور ان کی وجہ سے ڈسٹرب ہوکر اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا چھوڑ دیں۔ ایک تو اپنے آپ کو یہ یہ سوچ کر پرسکون کریں اگرچہ کچھ لوگوں نے میرے ساتھ برا کیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف میرے ساتھ ہی ہوا ہو ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے قریبی اور پیارے بندوں کے لئے دنیا کانٹوں کی سیج ہے ایسا اس لئے ہے ان کے لئے اللہ نے راحت اور سکون کی جگہ صرف اپنے پاس رکھی ہے ۔

لہذا جب اصل گھر آخرت اور اصل تعلق اللہ سے ہے تو کسی کے تکلیف دہ رویے پر کیا اپنے آپ کو تکلیف دینا سو اس دنیا کو عارضی گھر اور لوگوں کو اللہ کی مخلوق سمجھ کر تکلیف دینے سے گریز کریں اور تکلیف دینے والوں سے بھی صرف اللہ کی خاطر انبیاء اولیاء کی سنت پر چلتے ہوئے بھلائی کریں دوسرا اپنی ایک روٹین بنائیں کہ جو خرچہ کرنے کو یا جو کام کرنے کو اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھ کر جذباتی ہو کر اپ کا بھی کرنے کو دل چاہے تو اس عمل کو پہلے اللہ کے احکامات کی کسوٹی پر پرکھیں۔

اپنا تعلق اور عقیدہ صرف اللہ سے مضبوط رکھیں اور اپنے ذہن میں اس بات کو راسخ کریں کہ یہ دنیا صرف آزمائش کی جگہ ہم یہاں مزید کتنا رہ لیں گے تیس سال، چالیس سال یا بہت زیادہ پچاس سال پھر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور ہر نعمت کا حساب ہونا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سامان دنیا کی طلب میں ہم ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو یہ کہہ کر خسارے کا سودا کرتے ہیں کہ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا وَمَا لَـهٝ فِى الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (البقرة 200) (پھر بعض تو یہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے، اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔)

آجکل ضروریات زندگی کی بجائے نمود و نمائش کے اثر سے زیادہ اخراجات کئے جاتے ہیں حالانکہ ہمارے مذہب میں کھانے اور پہننے کی مد میں اسراف کی ممانعت ہے لیکن ہمارے ہاں انہی مدات میں اسراف کیا جاتا ہے خصوصا شادیوں پر اور یہاں تک کہ اموات پر بھی رسم و رواج کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔

نمود و نمائش کے لیے یہ اسراف کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے نا صرف ذہنی اذیت اور بیماری کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں رشوت ستانی اور حرام ذرائع آمدنی میں اضافے کی بالواسطہ وجہ ہے۔

لہذا اللہ کی نافرمانی میں حرام ذرائع سے کئے گئے اسراف کا ہم جسمانی تکلیف اور بیماری کی صورت میں حساب دیتے ہیں۔ اسی لئے سورہ البلد میں نمودار و نمائش پر پیسہ لٹا کر دوسروں پر رعب ڈالنے والے کے خرچ کو نقصان کا سودا قرار دیا گیا ہے جو آخرت میں عذاب کا باعث بنے گا
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىْ كَبَدٍ (4) کہ بےشک ہم نے انسان کو مصیبت میں پیدا کیا ہے۔اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْهِ اَحَدٌ (5) کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی بھی ہرگز قابو نہ پا سکے گا۔يَقُوْلُ اَهْلَكْـتُ مَالًا لُّبَدًا (6) کہتا ہے کہ میں نے مال برباد کر ڈالا۔اَيَحْسَبُ اَنْ لَّمْ يَرَهٝ اَحَدٌ (7) کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کسی نے بھی نہیں دیکھا۔اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٝ عَيْنَيْنِ (8) کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ (9) اور زبان اور دو ہونٹ۔وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (10) اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھائے۔فَلَا اقْتَحَـمَ الْعَقَبَةَ (11) پس وہ (دین کی) گھاٹی میں سے نہ ہو کر نکلا۔وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے۔فَكُّ رَقَبَةٍ (13) گردن کا چھوڑانا۔اَوْ اِطْعَامٌ فِىْ يَوْمٍ ذِىْ مَسْغَبَةٍ (14) یا بھوک کے دن میں کھلانا۔يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ (15) کسی رشتہ دار یتیم کو۔اَوْ مِسْكِـيْنًا ذَا مَتْـرَبَةٍ (16) یا کسی خاک نشین مسکین کو۔ثُـمَّ كَانَ مِنَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَـمَةِ (17) پھر وہ ان میں سے ہو جو ایمان لائے اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور رحم کرنے کی وصیت کی۔اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (18) یہی لوگ دائیں والے ہیں۔وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِنَا هُـمْ اَصْحَابُ الْمَشْاَمَةِ (19) اور جنہوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا وہی بائیں والے ہیں۔عَلَيْـهِـمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ (20) انہیں پر چاروں طرف سے بند کی ہوئی آگ ہے

لہذا لوگوں کے غلط راستے پر چل کر اللہ کی پکڑ میں آنے والے بننے کی بجائے اپنے آپ کو اس انسان میں تبدیل کریں جو دوسروں کی پرواہ کیے بغیر اعتماد سے اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر فلاح پانے والا ہو۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ (5)
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (6)
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button