Paid ad
Sports
Trending

پی ایس ایل کی پارٹی کس نے اجاڑی؟

آپ نے بچپن میں سانپ سیڑھی کا کھیل ضرور کھیلا ہوگا، اس میں کبھی کبھار90 سے آگے جانے کے بعد ایکدم سے پھر10،20نمبر پر آنا پڑ جاتا ہے، پی سی بی کی غفلت نے آج پاکستان کرکٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی کردیا،2009میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے نے ہمارے میدان ویران کر دیے تھے،پھر آہستہ آہستہ کرکٹ واپس آئی، رواں برس جنوبی افریقہ کی صورت میں پہلی بڑی ٹیم نے دورہ کیا۔

آگے انگلینڈ اور آسٹریلیا کو بھی آنا ہے مگر افسوس اب ایسا ہونا آسان نہیں رہا، پہلے سیکیورٹی کا مسئلہ ہوتا تھا اب بائیو سیکیورٹی بھی اہم چیزہے، دورے سے قبل ہر بورڈ انتظامات کا جائزہ لیتا ہے،مسلسل دوسرے برس پی ایس ایل میں کئی کیسز اور التوا پر اب دیگر ممالک ہماری بائیو سیکیورٹی پر تشویش کا شکار ہوں گے، یوں مستقبل کی ہوم سیریز پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

چند روز قبل میں نے جنوبی افریقہ کے عظیم فاسٹ بولر ڈیل اسٹین کا انٹرویو کیا جس میں انھوں نے آئی پی ایل کو پیسہ لیگ قرار دیتے ہوئے پی ایس ایل کو سراہا، اس بیان نے بھارت میں آگ لگا دی، سوشل میڈیا پراسٹوری ٹرینڈ کرتی رہی، دنیا بھر میں ہماری لیگ کا مثبت تاثر اجاگر ہوا مگر افسوس 3 دن پہلے جلے بھنے بیٹھے بھارتی آج خوشیاں منا رہے ہیں۔
ہمارے شائقین اچھی کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اب بیچارے مایوس بیٹھے ہیں،اس میں قصور وار حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہمارا بورڈ ہی ہے، حکومت کی مکمل سپورٹ اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے سبب اعلیٰ آفیشلز اپنے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، بائیو سیکیور ببل میں خامیوں کی فرنچائزز نے نشاندہی کر دی تھی، خود میں نے اپنی رپورٹ میں اس کا تذکرہ کیا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔

سب سے پہلی غلطی ایونٹ سے قبل اسلام آباد یونائٹیڈ اور ملتان سلطانز کو الگ ہوٹل میں ٹھہرانا تھی، ایک جگہ قرنطینہ کے بعد دوسرے ہوٹل منتقلی سے کیا فائدہ ہوا، پھر ایک فرنچائز اسٹیڈیم میں اشتہار کی شوٹنگ کرتی دکھائی دی جس میں بظاہر باہر کے لوگ بھی آئے تھے، پشاور زلمی کے وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی ٹیم اونر کو جھپیاں ڈالتے نظر آئے تو بورڈ کو بائیو سیکیورٹی یاد آئی، مگر جب میچ سے قبل 45 منٹ تک لاہور قلندرز کی ٹیم ہوٹل کے باہر زلمی کا انتظار کرتی رہی تو حکام اصول بھول گئے، وہاب اور سیمی کو شرکت کی اجازت دے دی۔

اس سے دیگر کھلاڑیوں کو بھی شہ ملی،گراؤنڈ میں ایکٹریس وغیرہ بھی گھومتی نظر آئیں، بعض کھلاڑیوں کی فیملیز نے بغیر قرنطینہ کے انھیں جوائن کیا،لفٹ میں دوسرے لوگ بھی آتے رہے، سیڑھیوں کا استعمال ہوا، باہر سے کھانے منگوائے جاتے رہے، پلیئرز ہوٹل کی لابی میں عام مہمانوں کے بیچ سے گذر کر جم جاتے،آئی پی ایل، بگ بیش، لنکا پریمیئر لیگ، ٹی ٹین لیگ سب ہو گئیں کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوا ایک ہمارے ایونٹ پر ہی کیوں نحوست کے بادل چھا گئے۔

وجہ نااہلی ہے، پی سی بی کو بائیو ببل کا مطلب ہی نہیں پتا، نیوزی لینڈ میں ہماری ٹیم کو جیسے قید رکھا گیا وہ اصل بائیو ببل تھا،آفیشلز ہر ماہ تنخواہوں میں کروڑوں روپے لے جاتے ہیں، اگر پورا ہوٹل بک کرا لیتے تو کیا جاتا، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے ہوٹلز میں فوج نگرانی کرتی تھی، یہاں کم از کم بورڈ اپنے کچھ لوگ تو ہرفلور پر بٹھا دیتا، پاکستانی ویسے ہی کورونا کو نہیں مانتے، ایسے میں اگر ہوٹل میں شادیاں بھی ہو رہی تھیں تو کون ایس او پیز کا خیال رکھ رہا ہوگا، اسٹیڈیم اور ہوٹل اسٹاف کیا بائیو ببل میں تھے؟آج ٹیم اونرز نے بورڈ حکام کی درست کلاس لی، ان بیچاروں کا پیسہ پھنسا ہوا ہے، پی سی بی آفیشلز کو تو رقم ملتی رہے گی، انھیں کیا فرق پڑنا ہے،یہ ٹھیک ہے کہ کئی ڈومیسٹک ایونٹس کا بھی انعقاد ہوا مگر وہ لوپروفائل مقابلے تھے۔

اس میں بھی کیسز آئے لیکن میڈیا کی توجہ کم ہونے کے سبب کوئی بریکنگ نیوز نہ بنی، زمبابوے اور جنوبی افریقہ سے سیریز میں چونکہ 40، 50 افراد کا بائیو ببل تھا اس لیے مسئلہ نہیں ہوا جہاں پی ایس ایل کیلیے400 سے زائد افراد کی بات آئی منتظمین ایکسپوز ہو گئے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کو جانے والے ڈاکٹر سہیل سلیم نے کاغذ پر مناسب انتظامات کیے لیکن عملی مظاہرے میں ناکام ثابت ہوئے،اب ویکسین لگوانے کی بات کر رہے ہیں،اگر ایونٹ ملتوی نہ بھی ہوتا تو دوسری ڈوز 14دن بعد لگتی تب میچز بھی ختم ہونے والے ہوتے،یہ صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکے کیلیے کیا گیا،کورونا کیسز میں کمی پر اب حکومت نے اسکولز و دیگر مقامات کھول دیے ہیں۔

پی ایس ایل کیلیے بھی 50 فیصد شائقین کی اجازت مل گئی تھی، یعنی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہی 17 ہزار افراد آ سکتے تھے مگر بورڈ سے400لوگ نہ سنبھالے گئے، تکبر سے اکڑ کر چلنے والے آفیشلزکی آج آواز تک نہیں نکل رہی تھی، ایک ٹیم کے مالک نے مجھ سے کہا کہ دوپہر کو وسیم خان کی پریس کانفرنس ہے ایسا لگتا ہے وہ مستعفی ہو جائیں گے، میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ اس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں، پاکستان میں بڑی بڑی چیزیں ہو جاتی ہیں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔

احسان مانی، وسیم خان، بابر حامد ان سب کو فوری طور پر عہدے چھوڑ دینے چاہئیں مگر اتنی اخلاقی جرات ان میں کہاں ہے، اتنی محنت سے پی ایس ایل برانڈ بنی تھی انھوں نے اس کا کیا حال کر دیا، فرنچائز اونرزبورڈ پر کورٹ کیس کر چکے، کئی معاہدے ختم ہوئے یا عدالت تک گئے، جوئے کی ویب سائٹ پر لائیو اسٹریمنگ ہوگئی، اس سال کا گانا سب نے دیکھا، بیرون ملک دورے کیلیے زبردستی افتتاحی تقریب کی ویڈیو بنانے ترکی چلے گئے، ہر چیز میں بدانتظامی نظر آئی مگر گورننگ بورڈ میں بھی اپنے لوگ ہیں کون پوچھے گا، حکومت اپنے مسئلے دیکھے یا کرکٹ کا سوچے اس لیے راوی پی سی بی حکام کیلیے چین ہی چین لکھتا ہے، البتہ پاکستان کرکٹ کے معاملے میں ایسا نہیں ہے آگے مزید تاریکی ہی نظر آ رہی ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button