Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

انفرادی علاج کے لوازم

تحقیق : کنول ناصر

ایک زمانہ تھا جب کوئی بیمار ہو کر طبیب کے پاس جاتا تھا تو لمبے چوڑے ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ کے بغیر صرف نبض دیکھنے اور خاصی لمبی discussion کے بعد طبیب کی طرف سے دوا اور پرہیز تجویز ہوتا تھاش جس پر عمل کے بعد تھوڑے لمبے عرصے بعد ہی سہی لیکن شفا نصیب ہو جاتی تھی۔

لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ میڈیکل سائنس نے گزشتہ صدی میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ انسانی جسم یہاں تک کہ DNA کی باریک ترین تفصیلات بھی انسانی نظر سے پوشیدہ نہیں رہیں، اس کے ساتھ جدید ترین تھراپی اور پیچیدہ آپریشن بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود شفا نہیں ہے مہنگے ٹیسٹوں اور دوائیوں کے باوجود مریض پر واضح کر دیا جاتا ہے کہ بیماری ختم نہیں ہو سکتی، صرف کنٹرول ہو سکتی ہے۔

لہذا جو ایک دفعہ بیمار ہو جائے وہ تا عمر بیمار ہی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ طب قدیم یعنی یونانی طریقہ علاج کا ہنر بھی اب کہیں نہیں نظر آتا ،بلکہ یہ لوگ بھی رسالوں اور اخباروں میں اپنی تشہیر کرکے لوگوں کو دوا کی صورت میں steroids دے کر ان کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے خواہ بیماریوں کی اقسام کچھ مخصوص ہیں کیوں نہ ہوں لیکن ہر انسان کے صورتحال اور پس منظر مختلف ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پس منظر اور محرکات کو جانے بغیر صرف مخصوص دوا دے دینا کسی مسئلے کا وقتی حل تو ہو سکتا ہے لیکن مستقل نہیں ۔ طب یونانی کی ابجد جاننے والے سبھی افراد ان عوامل سے واقف ہیں، جنہیں علاج کے لئے مدنظر رکھا جاتا ہے۔
سب سے پہلا اس میں مزاج ہے۔

کائنات کی ہر چیز کا چار عناصر آگ، ہوا، پانی اور مٹی سے مرکب ہونے کا نظریہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی، لہذا ہم میں سے ہر انسان کے قدرتی طور پر چار میں سے ایک مزاج ہوتا ہے گرم خشک، گرم مرطوب، سرد مرطوب اور سرد خشک، اسی طرح ہر عضو کا اپنا مزاج ہوتا ہے مثلا بال اور ناخن وغیرہ خشک ہوتے ہیں جبکہ دل گرم تر ہوتا ہے۔

دوسرا موسم اور اب و ہوا اور تیسری خوراک اور دیگر حالات ۔

ایک عامل اس میں ارواح ہیں جنہیں vital spirit کہا جاتا ہے ۔ طب کے علم کی رو سے ان کی تخلیق کے مقام دل، دماغ اور جگر ہیں۔

ان سب عوامل کو امام رضا علیہ السلام نے خلیفہ مامون کو لکھے جانے والے خط "رسالہ ذہبیہ” میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے : "بدن کی صحت اور اس کا قیام اور اس کی خرابیاں سب کھانے پینے پر موقوف ہیں۔ اگر کھانے پینے کی اصلاح ہو جائے گی تو بدن کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اور اگر کھانے پینے میں فساد ہوگا تو بدن میں فساد ہو گا۔
اے بادشاہ! یہ بھی یاد رکھ کی نفوس کی قوت مزاج بدن کے تابع ہے اور مزاج بدن ہوا کہ تابع ہے۔ پس جیسے جیسے ہوا مختلف اوقات وہ مقامات میں بدلتی رہتی ہے ویسے ہی مزاج بھیدی جاتے ہیں۔ کبھی ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے کبھی گرم ویسا ہی جسم پر اثر ہوتا ہے، اور جن مقامات میں ہوا مسلسل گرم یا سرد ہوتی ہے وہاں ویسا ہی اثر مزاجوں کی صورت سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور جہاں ہوا معتدل ہو وہاں اجسام کا مزاج بھی معتدل ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ مزاجوں کے دیگر تصرفات و تغیرات، حرکات طبعی سے درست ہوتے رہتے ہیں۔ حرکات طبعی یہ ہیں ہضم، مقاربت، سونا، چلنا پھرنا اور آرام کرنا وغیرہ، کیونکہ اللہ تعالٰی نے تمام اجسام کی بنا چار طبیعتوں پر قرار دی ہے سودا، صفر، خون اور بلغم۔
دو أن میں سے حار (گرم) ہیں، اور دو بارد (ٹھنڈے)۔ پھر ان دو دو میں بھی اختلاف رکھ دیا ہے یعنی دونوں حارث میں سے ایک تر ہے اور ایک خشک، اسی طرح دونوں باردوں میں سے ایک تر ہے، اور ایک خشک۔ پھر چاروں غلطوں کو جسم کے چار حصوں پر تقسیم کیا، یعنی سر سینہ پہلو اور جسم کا نیچے نیچے کا حصہ۔

پس سر دونوں کان دونوں آنکھیں دونوں نتھنے اور منہ اس سارے سلسلے میں خون کا غلبہ ہوتا ہے، سینے میں بلغم اور ریاح کا، پہلوؤں میں خلط صفراء کا اور پیٹ کے نچلے حصے میں سودا کا غلبہ ہوتا ہے ۔

مختلف مزاجوں میں مختلف نوعیت کے صحت کے مسائل ہوتے ہیں۔ وکیپیڈیا پر بوعلی سینا کی کتاب Canon of Medicine والے پیج میں ان امکانات کی جامع وضاحت ایک جدول کی صورت میں کی گئی ہے۔

یہاں میں اپنے الفاظ میں کچھ وضاحت کر دیتی ہوں ۔
گرم خشک یعنی صفراوی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ لوگ گرم مزاج ہوتے ہیں۔
لہذا ٹھنڈے علاقوں میں رہنا اور ٹھنڈی غذائیں اور مشروبات استعمال کرنا ان کی طبیعت کے موافق ہے۔ اگر گرم علاقوں میں رہتے ہیں تو کم از کم گرمی کے موسم میں گرم اشیاء کم سے کم استعمال کریں ورنہ صحت کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کا مسئلہ غصہ، نفرت، اشتعال کے جذبات اور انہی جذبات کے حساب سے بیماریاں ہوتی ہیں۔

جیسا کہ میں نے سابقہ تحریر میں وضاحت کی کہ ایک طرف جب انسان کا فطری مزاج گرم ہو، اور دوسری طرف وہ گرم غذاؤں کا استعمال کر رہا ہوں مزید وہ غم و غصے یا نفرت کی کیفیت میں مبتلا ہو تو جگر خون کی بجائے پہلا پانی بنانا شروع کر دیتا ہے، جسے صفرا، یرقان یا ہیپاٹائٹس کہا جاتا ہے۔

یرقان کے علاوہ اس مزاج کی ممکنہ بیماریاں فالج، بواسیر،گردوں کی سوجن اور بیتاب کی رکاوٹ وغیرہ ہیں۔

گرم تر یعنی دموی مزاج
اس مزاج کے لوگوں میں خون کا غلبہ ہوتا ہے، زندگی کی رونقوں اور لوگوں میں خوش رہنے والے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کے جسم اور جلد میں چکنائی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، اس لئے انہیں چکنی مرغن اور میٹھی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ورنہ جلد کے مسائل جیسے سوجن، کیل مہاسے یہاں تک کہ کینسر جیسے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب ان لوگوں کو اچانک کوئی غم پہنچے تو ایسی صورت میں کوئی چھوٹا سا زخم یا عام سی گلٹی بھی کینسر جیسی سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے، کیونکہ ایک عمارت جو پہلے سے ہی کمزور ہو اسے گرانے کے لئے ایک دھکا ہی کافی ہوتا ہے ۔ لہذا صحت برقرار رکھنے کے لیے ان لوگوں ٹھنڈی کھٹی چیزوں خصوصا Orange family اور ٹھنڈے پھلوں سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیئے۔

سرد تر یعنی بلغمی مزاج
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ افراد ٹھنڈے مزاج کے کم سوشل ہوتے ہیں دماغ کا استعمال کم کرتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جتنا سوچتے ہیں اتنا عمل نہیں کرتے۔
محفلوں اور رونقوں میں جانے کی بجائے کتابیں پڑھنا اور تخلیقی کام میں مصروف رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ سوچتے زیادہ ہیں لہذا اگر ایک طرف منفی سوچ یعنی بدگمانی، ظن اور حسد وغیرہ سوچ پر غالب آ جائے اور دوسری طرف ٹھنڈی، کھٹی اور چکنی چیزوں کا خوراک میں تناسب زیادہ ہو جائے تو حلق میں اور جوڑوں میں ریشہ اور اس سے متعلقہ مسائل جیسے قبض بد ہضمی وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
لہذا انہیں ایسی چیزوں سے بچنا چاہئے اور اپنی خوراک میں گرم اور خشک تاثیر والی اشیاء جیسے کھجور، گوشت، سپاری،خشک میوہ جات کا مناسب مقدار اور طریقے سے استعمال جاری رکھنا چاہیئے۔

سرد خشک یا سوداوی
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ لوگ سردی اور خشکی کا شکار ہوتے ہیں لہذا لوگوں اور حالات کا دباؤ، خوف اور مایوسی ان میں بیماریوں کا سب بنتے ہیں، لہذا آنتوں کے مسائل، پتھریاں، بند نزلہ(جیسے کرونا یا اس کی وجہ سے ہونے والی سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں) اور خشک جلد کی الرجی وغیرہ ان لوگوں کی صحت کے مسائل ہیں۔ اس لئے ان کو گرم اور چکنی چیزوں کا استعمال کرنا چاہیئے، جیسے دیسی گھی، انڈے اور مناسب مقدار میں گوشت یعنی good fats وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیئے، اور ٹھنڈی خشک چیزوں جیسے کولڈ ڈرنکس، آلو وغیرہ سے بچنا چاہیے۔

جدید میڈیکل سائنس ان عناصر کو تسلیم نہیں کرتی لیکن ذاتی طور پر ہم میں سے ہر ایک کو ممکنہ صحت کے مسائل سے بچنے اور مناسب ڈائٹ پلان ترتیب دینے کے لئے اپنے مزاج کا اندازہ ہونا ضروری ہے۔

زمانہ قدیم میں جو بلڈ ٹسٹ کا طریقہ تھا اس میں خون کو ایک ٹیوب میں ڈال کر رکھ دیا جاتا تھا، کچھ وقت بعد وہ خون چار حصوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ لہذا جس حصے کا تناسب زیادہ ہوتا تھا تو وہی اس انسان کا مزاج ہوتا تھا۔

یہ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر مزاج میں ہر بیماری ممکن کا امکان نہیں ہوتا۔

جیسا کہ اس حدیث سے بھی ظاہر ہے :
"زکام خدا کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اللہ اس کو بیماری پر نازل کرتا ہے کہ یہ اس کو بھگا دے۔”

اسی طرح فرمایا :
"چار چیزوں سے کراہت نہ کرو اس لیے کہ وہ فائدہ مند ہیں۔
1۔ زکام سے کیوں کہ وہ برص سے بچاتا ہے۔ 2۔پھوڑوں سے کیوں کہ وہ جذام سے بچاتے ہیں۔ 3۔ آشوب چشم سے کہ وہ اندھا ہونے سے بچاتا ہے۔ 4۔ کھانسی سے کہا وہ فالج سے محفوظ رکھتی ہے۔

پھر فرمایا :
ہر آدمی میں دو رگیں ہوتی ہیں ایک اس کے سر میں جو جذام پیدا کرتی ہے، اور ایک اس کے جسم میں جو برص پیدا کرتی ہے۔ تو جب سر کی رگ ہیجان میں آتی ہے تو خداوند کریم اس پر زکام کو مسلط کر دیتا ہے، اور جب جسم کی رگ ہیجان میں آتی ہے تو خداوند کریم اس پر پھوڑوں کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعے مرض خارج ہو جائے۔ اگر تم میں سے کسی کو زکام ہو جائے یا پھوڑے نکل ائیں تو اسے چاہیے کہ اپنی عافیت پر اللہ کا شکر ادا کرے۔

ان احادیث پر غور کریں تو یہاں بھی مزاج کا فرق واضح ہے یعنی ایک بیماری جو ایک انسان کو ہو سکتی ہے دوسرے کو ہونے کا امکان اس لئے نہیں ہے کہ اس کا مزاج اور دیگر حالات و افکار اس سے مختلف ہیں۔

سابقہ تحریر میں، میں نے قرآن مجید اور جدید ریسرچ کی روشنی میں بیماریوں کے روحانی محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات ( قسط نمبر 1)

اگر اس تفصیل کو ذہن میں رکھیں تو فالج ایسے انسان کی جو ایک مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے رہ چکا ہوتا ہے choice of behavior کے تحت خود کو ملنے والی توجہ اور پروٹوکول کو دوبارہ حاصل کرنے کی لاشعوری کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
لہذا اس بیماری کا امکان گرم خشک مزاج میں ہوتا ہے جبکہ کھانسی نزلہ سرد تر یا بلغمی مزاج رکھنے والے ایسے انسان کا مسئلہ ہوتا ہے، جو ناپسندیدہ حالات اور لوگوں کے ساتھ دل میں برا خیال ہوتے ہوئے بھی کمپرومائز کر رہا ہوتا ہے، یعنی فالج اور کھانسی ایک دوسرے کی بالکل متضاد بیماریاں ہیں کیونکہ ان کے متعلقہ مزاج یعنی گرم خشک اور سرد تر بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں لہذا یہ دونوں بیماریاں ایک انسان میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔

اسی طرح سے جیسا کہ گرم تر مزاج جسکی علامت خون ہے کے متعلق میں نے بتایا کہ یہ لوگ سوشل لائف کو انجوائے کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، لہذا ان کی صحت سے متعلقہ مسائل بھی سماجی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔

جیسے اگر آمدنی یا وسائل کم ہو جائیں یا اچانک نقصان کی صورت میں جب ان کا socioeconomic status نیچے آنے کا خطرہ ہو تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسا فرد جس کے مان میں وہ معاشرے میں سر اٹھا کر جی رہے ہوتے ہیں، اگر اچانک ان سے جدا ہو جائے یا انہیں deprive کر دے تو کینسر کا امکان ہوتا ہے۔ مزید extra activity کے باعث نکسیر پھوٹنا بھی عام بات ہوتی ہے۔ اسی طرح ہائی بلڈ پریشر بھی آجکل کی ایک عام بیماری ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک فرد سوسائٹی سے جو توجہ اور پروٹوکول لینے کا عادی ہوتا ہے، جب وہ ملنا کم یا بند ہو جائے تو غم و غصے سے خون کا فشار بلند ہو جاتا ہے۔

یہ بیماریاں دوسرے مشاغل میں مصروف رہنا پسند کرتے ہیں، اور سرد خشک یا سوداوی افراد اکثر معاشرے یا معاشرے کے افراد سے خوفزدہ یا ڈبے ہوئے ہوتے ہیں۔

لہذا ان کے مسائل لوگ بلڈ پریشر اور گھبراہٹ کے باعث آنتوں کے مسائل ہوتے ہیں۔ اگر covid جو کہ ایک طرح کا بند نزلہ تھا کی صورتحال پر غور کریں تو جب یہ بیماری پھیلی تھی تو تقریبا ہر گھر اس سے متاثر ہوا تھا، لیکن ہر گھر میں سب لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ سرد خشک یا سوداوی اور وہ لوگ متاثر ہوئے جو مایوسی اور وبا کے خوف میں مبتلا ہو گئے جبکہ بلغمی افراد عام فلو اور ریشے والی کھانسی اور زکام میں مبتلا ہو گئے۔

وقت کے ساتھ غذائی اور آپ و ہوا کی تبدیلی کے باعث انسانی کیفیات کے حساب سے مزاج تبدیل بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ طے ہے مخالف مزاج کی دو بیماریاں ایک ہی انسان میں بہ یک وقت اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔

اس کی مثال وہ غیر صحت بخش خوراک ہے جو ہم سب استعمال کر رہے ہیں یعنی تیار مصالحے، چائنہ نمک، بچوں کے پیکٹ بند اسنیکس اور چپس، پرائمری پولٹری آئیٹمز اور خصوصا چینی کی وافر مقدار پر مشتمل بسکٹ اسنیکس اور بیکری آئٹمز وغیرہ۔

اگرچہ ہم سب ان چیزوں کا بے دھڑک استعمال کرکے اپنی صحتوں سے کھیل رہے ہیں، لیکن مزاج کے فرق کی وجہ سے ہر کسی کے مسائل مختلف ہیں یعنی سوداوی میں یہی خوراک شوگر کا باعث بن رہی ہے۔ بلغمی میں ٹانسلز اور تھائیرائیڈ، دموی میں کینسر اور صفراوی میں ہیپاٹائٹس کے مسائل ظاہر ہوتے ہیں ۔

سابقہ تحریر میں میں میں نے خوراک کے حوالے سے سورہ البقرة کی اس آیت کا حوالہ دیا تھا:
: كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّـٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (60) ↖

اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو۔

یعنی وہ چیزیں کھائو پیو جو جنہیں اللہ نے تمہارا رزق بنایا ہے۔ لہذا جدید ریسرچ یہ ثابت کر رہی ہے کہ اوپر بتائی گئی چیزوں کے علاوہ بہتر ذائقہ اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیوند کاری اور دیگر جدید طریقوں سے پیدا کی جانے والی خوراک میں کاربوہائیڈریٹس کی کثیر مقدار شامل ہوتی ہے جو کہ انسان کی جسمانی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے اس لئے گندم کی جدید قسم، آلو اور پیوند کاری سے حاصل شدہ آموں کی اقسام شوگر کے کیسز میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سنت کے مطابق سادہ اور صحت بخش خوراک کو اپنا معمول بنائیں اوپر بتائی گئی نقصان دہ اشیاء کا استعمال بتدریج کم کرتے جائیں، خاص طور پر بچوں کو ان چیزوں سے بچائیں اور گھر میں ایسی مناسب غذا تیار کرکے انہیں فراہم کریں جو چاروں غذائی اجزاء کی مناسب مقدار پر مبنی ہو ناکہ ان میں humorous balance برقرار رہے، اور کسی چیز خصوصا carbohydrates کی زیادتی سنگین نوعیت کی بیماریوں کا باعث نہ بنے۔

آپ بھی اگر صحتمند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اپنے مزاج کو سمجھ کر اسکے مخالف تاثیر والی غذا استعمال کریں تاکہ humorous balance برقرار رہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button