Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

وائس چانسلر کی ریٹائرمنٹ: ویمن یونیورسٹی کے سیاہ اور کرپشن زدہ دور کا خاتمہ، ملازمین نے وائٹ پیپر جاری کردیا

ویمن یونیورسٹی کے ملازمین نے وائس چانسلر کے خلاف وائٹ پیپر جاری کردیا، چار سالہ دور سیاہ اور کرپشن زدہ قرار دے دیا۔
ملازمین کی طرف سے جاری کردہ وائٹ پیپر جو سیکرٹری ایچ ای ڈی ، چانسلر، تمام یونیورسٹیوں کے چانسلرز ، اور ملتان کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ارسال کیاگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر اور رجسٹرار کے گرد گھیرا تنگ، عدالت عالیہ نے سینڈیکیٹ سے جواب مانگ لیا

جاری پیپر میں کہاگیا ہے کہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کے دور میں غیر قانونی تقرریاں کی گئیں، ڈاکٹر قمر رباب، ڈاکٹر سعدیہ ارشاد اور ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی نے بالترتیب پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ کیلئے رجسٹرار اور ایڈیشنل رجسٹرار بن کر غیر قانونی طور پر اشتہار دیا، جبکہ ٹریثرار نے یونیورسٹی کی مالی حالت کے بارے میں وائس چانسلر کو ایک خط لکھا کہ یونیورسٹی کی مالی حالت اچھی نہیں ہے، اگر یہ بھرتیاں کی گئیں تو 2024 میں ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر قمر رباب جو کہ پروفیسر کی امیدوار بھی تھیں، سیکروٹنی کمیٹی کی چیئرپرسن بھی بن گئی تاکہ اپنے آپ کو اہل قرار دے دے۔
سلیکشن بورڈ کا یہ ایک فیصلہ تھا کہ پروفیسر کی امیدوار کیلئے کم از کم ایم اے کے لیول کے پڑھانے کا تجربہ ہونا لازم ہے، جبکہ ایئر یونیورسٹی ملتان کیمپیس میں ڈاکٹر قمر رباب نے صرف بی ایس لیول کے چھوٹے مضامین پڑھائے، ایئر یونیورسٹی کے ریاضی کے ڈیپارٹمنٹ میں کوئی پوسٹ گریجوایٹ کورسز نہیں پڑھائے جاتے تھے۔
یہ تجربہ قابل قبول سلیکشن بورڈ کے حکم کے مطابق نہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی کی ایڈیشنل رجسٹرار ریکارڈ میں تبدیلی کے لیے فائلیں گھر لے گئیں

ڈاکٹر قمر رباب نے، ڈاکٹر سعدیہ ارشاد اور ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی کی درخواستوں کو خود "سیکرٹنائز” کیا، اور بہت سے امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا تاکہ اپنی دونوں سابقہ ایئر یونیورسٹی کی سہیلیوں کی سلیکشن پکی ہوسکے۔

اس کے بدلے میں ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی نے بطور ایڈیشنل رجسٹرار (ٹیچنگ) نے ڈاکٹر قمر رباب اور ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کی ملکی وغیر ملکی رپورٹس کو جعلی ای میلز کے ذریعے منظور کروایا۔

ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی نے بطور ایڈیشنل رجسٹرار (ٹیچنگ) نے غیر قانونی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر (منیجمنٹ سائغنز فنانس) اپنی بھرتی کو کنفرم کروایا۔

یہ بھی پڑھیں ۔

اس سے پہلے یونیورسٹی نے اسسٹنٹ پروفیسر (منیجمنٹ سائنسز) کی دو آسامیاں مشتہر کی تھیں اور ایک امیدوار حنا اسماعیل کو بھرتی کرلیا گیا، اور دوسری پوسٹ خالی رہ گئی۔
بعد میں ڈاکٹر سعدیہ ارشاد اور ڈاکٹر قمر رباب نے ملی بھگت سے اسسٹنٹ پروفیسر (منیجمنٹ سائنسز) کی خالی پوسٹ کو اسسٹنٹ پروفیسر (فنانس) میں غیر قانونی طور پر تبدیل کروایا، بلکہ ایک اور پوسٹ بھی پیدا کی گئی تاکہ دو پوسٹوں کیلئے جتنے بھی امیدوار آگئے تو ڈائریکٹ انٹرویو ہوگا۔
ڈاکٹر ماریہ شمس کو ٹیسٹ سے بچانے کیلئے یہ سارا ڈرامہ کیا گیا، اور ہوا وہی جس کا سب کو پہلے سے ہی پتہ تھا کہ ماریہ شمس خاکوانی کو سلیکٹ کرنا تھا اور دوسری پوسٹ کو خالی چھوڑنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان : وائس چانسلر کی جاتے جاتے بھرتیاں، لوٹ سیل لگ گئی

ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی اسسٹنٹ پروفیسر (منیجمنٹ سائنسز) پوسٹ کیلئے بھی نا اہل ہیں، کیونکہ ان کی پی ایچ ڈی کامرس میں ہے جو کہ کسی بھی صورت میں منیجمنٹ سائنسز فنانس کے برابر نہیں ہے۔
ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی نے اسسٹنٹ پروفیسر (منیجمنٹ سائنسز) فنانس کی گریڈنگ شیٹس خود تیار کیں، اور پانچ نمبر میرٹ میں شامل کیے جوکہ پوزیشن کے بنتے تھے، جبکہ ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی کی ڈاکٹریٹ میں کوئی پوزیشن نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی : پروفیسر کی دو نمبری پکڑی گئی؛ گورنر نے طلب کرلیا، رجسٹرار کی بھی پیشی

امیدواران کی درخواستوں کو ان "سبجیکٹ ایکسپرٹس” کے پاس بھیجا گیا، جن کے نام سنڈیکیٹ سے منظور شدہ لسٹ میں نہیں تھے۔
انہوں نے وائس چانسلر سے ان ایکسپرٹس کے نام مطلوب کروائے، اس بیان کے ساتھ کہ یہ نام منظور کرنے کا اختیار وائس چانسلر کے پاس ہے۔
جبکہ یونیورسٹی کے ایکٹ میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے کہ ان ایکسپرٹس کے نام سلیکشن بورڈ نے فائنل کرنے ہوتے ہیں، اور یہ اختیار کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا اجلاس : ممبران کو اندھیرے میں رکھ کر غیر قانونی اقدام منظور کرانے کی تیاریاں

سنڈیکیٹ کی ہدایت کے باوجود لیگل ایڈوائزر کی تقرری نہ کی گی، چار سال گزرنے کے باوجود ڈاکٹر عظمیٰ قریشی سنڈیکیٹ کے اس حکم نامے کو عمل درآمد نہ کراسکی، جو کہ یونیورسٹی کے ایکٹ کی شق 12(i) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مزید یہ کہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی، رانا آصف سعید ایڈووکیٹ سے اپنے ذاتی کیسوں کی پیروی کرواتی ہے اس کی فیس یونیورسٹی کے خزانے سے دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان میں پنجاب یونیورسٹی کے ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کا انکشاف

اسی طرح غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف سنڈیکیٹ کے فیصلے پر عمل نہ کیاگیا 20 فروری کی سینڈیکیٹ میں یہ طے کیا تھا کہ فائق خان ترین ایڈمن آفیسر کے خلاف ایف آئی آردرج کروائی جائے، اور ایک کمیٹی بنائی جائے، لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے نہ تو ایف آئی آر درج کرنے کیلئے کچھ کیا اور نہ ہی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو کمیٹی بنانے کی درخواست دی، جو کہ سنڈیکیٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ڈاکٹر عظمی قریشی اس فیصلے کو عملدرآمد کرانے کیلئے یونیورسٹی ایکٹ کی شق 12(1) کے تحت پابند تھی، لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان : غیر قانونی طورپر اساتذہ کی بھرتی اور ترقی دینے کی تیاریاں مکمل

جون2021کی سنڈیکیٹ نے ڈاکٹر عظمیٰ قریشی سے کمیٹیاں بنانا، اور دوبارہ ردوبدل کرنے کا اختیار واپس لے لیا؛ تاہم ڈاکٹر عظمی قریشی نے کمیٹیاں بنانا اور ختم کرنے کا سلسلہ بنا کسی اجازت کے چلائے رکھا۔

مگر حیران کن بات یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی ایکٹ کے دفعہ 30 کے تحت یہ کام کررہی تھی، جبکہ یہ دفعہ یہ کہتی ہے کہ یہ اختیار صرف یونیورسٹی کی اتھارٹی کیلئے ہے، جبکہ وائس چانسلر ایکٹ کے مطابق کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی انتظامیہ کی دھمکیوں نے ملازمین و افسران کو پریشان کردیا

24اگست 2021 کی سنڈیکیٹ میں مس اقراء قریشی (لیکچرار) کی درخواست برائے این او سی برائے اعلیٰ تعلیم خارج کردیا، اس حکم کے ساتھ کہ فیکلٹی کی کمی ہے، اور کلاس اور آفس ٹائم ایک ہی تھا۔
تاہم ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے دھوکا دہی سے اگلی سنڈیکیٹ میں اس کو منظور کروادیا بنا کسی حقیقت اور ثبوت کے جو کہ سنڈیکیٹ کو دکھائے جانے ضروری تھے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
معاشی مشکلات کا شکار ویمن یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کااجلاس لاہور میں کرانے کا فیصلہ

اسی طرح ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے دو عدد غیر قانونی کینٹینرز کی خریداری کی جن کی کوئی ضرورت نہیں تھیز اس سے یونیورسٹی کو 45لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، دو عدد کینٹینرز خریدے جن کا کوئی مقصد نہیں تھا لیکن یہ اس لیے خریدے گئے کہ وینڈر سے مالی مفادات حاصل کیے جاسکے۔
دونوں کینٹینرز متی تل کیمپس میں پڑے پڑے ناکارہ ہورہے ہیں، سکریپ بن رہے ہیں۔

خواتین یونیورسٹی ملتان نے منظور شدہ PC-I کے تحت سکیل 1سے16 تک کے ملازمین کیلئے فلیٹس کی تعمیر کرائی تھی، لیکن ڈاکٹر عظمی قریشی نے ایک بھی گریڈ 1سے16 تک کے ملازم کو گھر نہ دیا، بلکہ اپنے قریبی منظور نذر خواتین کو الاٹ کردیے۔

متی تل کمپس میں وائس چانسلر ہاؤس کو غیر قانونی طور پر اپنی منظور نذر رجسٹرار ڈاکٹر قمر رباب کو الاٹ کیا گیا، جس کی وجہ اس کو حد سے زیادہ نوازنا ہے، اور آنے والے وائس چانسلر کو اس گھر سے محروم رکھنا ہے۔

جبکہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی مختلف کمیٹیوں کے اجلاس کے منٹس میں ردبدل کرتی رہیں ہیں، مثلاً سنڈیکیٹ، سلیکشن بورڈ اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے منٹس میں ردوبدل کرنے کی ماہر تصور کی جاتی ہے۔

وہ ہمیشہ سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے ریکارڈ کرتی ہے۔ میٹنگ کے پراپر فیصلے ہرگز ریکارڈ نہیں کرتی جس کی مثال 38ویں سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں یہ طے ہوا تھا کہ رجسٹرار کو تین ماہ کی توسیع دی جائے گی، لیکن اس نے اس فیصلہ کو ردوبدل کرکے چھ ماہ کی توسیع لکھ دی۔

ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے اپنے پورے چار سالہ کیرئیر میں رجسٹرار، خزانچی اور کنٹرولر امتحانات کی پوسٹ پر مختلف امیدواروں کو تعینات نہ ہونے دیا، اور اس کے پیچھے وجہ صرف اور صرف اپنے ذاتی غیر قانونی مقاصد تھے۔

رجسٹرار اس لیے بھرتی نہ کیا گیا کیونکہ وہ ان کی منشاء کے مطابق بھرتیاں کرنے میں شامل تھی۔
تقریباً آدھی بھرتیاں یونیورسٹی کے اندر سے اور آدھی بھرتیاں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے کی گئی۔

اسی وجہ سے ریگولر خرانچی بھی تعینات نہ کیا گیا تاکہ اپنے مالی مفادات کو تحفظ مل سکے۔

سید ریحان قادر اسسٹنٹ خرانچی جو کہ گریڈ17 میں تعینات ہے، اس کو گریڈ 20 کا خزانچی کا چارج دیا ہوا ہے جو کہ قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایک طاہرہ اختر نامی امیدوار کو سلیکشن بورڈ نے بطور رجسٹرار منتخب کرلیا تھاش جس کو بعد میں ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے سنڈیکیٹ سے ختم کروادیا۔

ان کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ یہ عمل غیر قانونی تھا، اور زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔
اس معاملہ کو متعلقہ امیدوار نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے اپنے کیریئر میں ٹیچنگ سٹاف کو دو مرتبہ پروموٹ کیا۔ ڈاکٹر قمر رباب رجسٹر ایڈیشنل چارج پر کام کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر سے پروموٹ ہوکر اپریل2022 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر دسمبر 2022 میں پروفیسر بن گئی، ایسا ہی کام ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کے ساتھ کیا۔

ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے اپنے کیریئر میں ایڈمن سٹاف کو برا بھلا کہا۔یونیورسٹی ملازمین نے صحت افزاء سرگرمیوں کو یونیورسٹی میں شروع کرنے کا سوچا، جس کیلئے انہوں نے ذاتی اخراجات پر ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد کا منصوبہ بنایا ، جس کی اجازت ہائیر اتھارٹی سے لی گئی۔
اس کی افتتاحی تقریب کی تصاویر کو دیکھ کر انتہائی گھٹیا ریمارکس دیئے، اور راتوں رات ٹورنامنٹ ختم کروادیا۔

سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہدہ حسنین نے ایڈمن بلاک کے سامنے پودوں کے خوبصورت باڑ بڑی محنت سے ڈیزائن کرواکر تیار کی تھی تاکہ یونیورسٹی کی خوبصورتی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ طالبات کیلئے پردے کا بھی اہتمام رہے، لیکن اس خاتون نے آتے ساتھ ہی اس باڑ کو ہمیشہ کیلئے ختم کروادیا۔
ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالتے ہی اس پردے کو ہمیشہ کیلئے ختم کروایا تاکہ وہ اپنے روشن خیالی کے منصوبے کو فروغ دے سکے۔

ترقی حاصل کرنا ہر ملازم کا بنیادی حق ہے جو کہ آئین پاکستان اسے یہ حق دیتا ہے۔
ایمرسن یونیورسٹی میں مختلف آسامیوں کیلئے اشہار جاری کیا، جس پر خواتین یونیورسٹی ملتان کے ایڈمن بلاک کے ملازمین نے اپلائی کرنے کیلئے این او سی کی درخواست گزاری، جس کو واضح طور پر این او سی دینے سے انکار کردیا، اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی کہ جو شخص اپلائی کرے گا اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا ، اور اسی مقصد کیلئے ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کی "منظور نذر” کی ٹیم نے ایمرسن یونیورسٹی ملتان کو مراسلہ جاری کردیا کہ خواتین یونیورسٹی کے کسی بھی ملازم کی درخواست کو قبول نہ کیا گیا۔

پاکستان میں مہنگائی تیز رفتاری سے اوپر جاری ہے لیکن ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے جاتے ہوئے ڈیلی ویجز کے سفید پوش طبقے کو نوکری سے نکال دیا ، اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے، جن میں بیشتر ملازمین تین سال سے بھی زائد عرصہ سے کام کررہے تھے۔

یونیورسٹی کے ملازمین اعلیٰ حکام سے درخواست کرتے ہیں، مستقبل میں کسی اچھی ذہنی توانا خاتون کو خواتین یونیورسٹی ملتان کا وائس چانسلر لگایا جائے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button