طب کی ترقی میں قران و حدیث کا کردار (تشریح الاعضاء)
تحریر:کنول ناصر
عام رائے یہ ہے کہ مصریوں چینیوں اور بابلیوں کے بعد موجودہ ایران اور عراق کے اہل علم کی وجہ سے تمام علوم میں جو تحقیق ہوئی اس نے موجودہ سائنسی ترقی کی بنیاد رکھی۔
اب ایک لمحے کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ اس خطے میں رہنے والوں کے یعنی کہ اتش پرستوں کے قدیم علوم کی بنا پر ایسا ہوا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب طلوع اسلام کے بعد ہی کیوں ہوا اور تمام اہل علم یا تو مسلمان تھے یا مسلمان اہل علم کے شاگرد ہی کیوں تھے۔
لیچولی نامی ایک مغربی مفکر اپنی ریسرچ میں لکھتے ہیں کہ
Avicenna relied upon a strong Greek tradition, but was also able to provide
original observations and brought his own medical, physiologic and
philosophic theories to the Canon.(”
GALENIC HERITAGE IN THE NEUROANATOMY OF AVICENNA’S
CANON OF MEDICICE)
اب یہاں ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ بو علی سینا کہ اوریجنل ابزرویشن کا ماخذ کیا تھا۔
۔
درحقیقت قدیم مصری ہوں یا بابلی سب ہماری طرح محدود عقل رکھنے والے عام انسان تھے. ان میں اتنی فہم و فراست کہاں تھی کہ شاندار احرام اور معبد تعمیر کر سکیں یہ سب اس اللہ کا اپنے نبیوں اور پیغمبروں کو دیا ہوا علم ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے۔
تاریخ انبیاء کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی پیاری ہستیوں میں سے اکثر کی جائے پیدائش بابل یا فلسطین تھی اور انہوں نے مصر کی جانب ہجرت کی. جیسے شیث علیہ السلام، ادریس علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسی علیہ السلام اور ان کے علاوہ بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء کا مسکن یہی علاقے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں پر شیٹ علیہ السلام کے زمانے کے علم بھی ستونوں پر موجود ہیں, ادریس علیہ السلام کے بھی اور خصوصا حضرت یوسف علیہ السلام نے سات سال کے قحط کے زمانے میں جس طرح لوگوں کو بھوک سے بچانے کا اہتمام کیا اس کے تمام ثبوت 1900 سے 1800 قبل مسیح کی دستاویزات سے ملتے ہیں۔
اسی طرح ان سے قبل اولین احرام جو کہ آمون ہوتب (جس کے لغوی معنی علیہ السلام کے ہیں) نامی شخصیت سے وابستہ ہے. اس کے مجسمے ایک سیاہ فارم سے مشابہ ہیں اور دوسری طرف کہا یہ جاتا ہے کہ مصر سے زیادہ احرام سوڈان میں ہیں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو حکیم لقمان جن کا ذکر قران پاک میں بھی ہے کا تعلق سوڈان سے تھا اور وہ ایک سیاہ فام تھے۔اسی طرح "stolan legency” نامی تحقیق کے مصنف کا دعوی ہے کہ یونانی علوم دراصل مصری راہبوں سے حاصل کردہ حضرت موسی کے دور کے علوم ہیں اپنے دعوے کے ثبوت میں وہ یہ کہتے ہیں کہ یونان کے مذہب کا واحدانیت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ جو بھی اس عقیدے پر چلنے کی کوشش کرتا اسے سخت سزا دی جاتی تھی۔
اگر طب کی بات کی جائے تو مسلمان اطباء نے گیلن یعنی حکیم جالینوس کے علم استفادہ حاصل کرکے اس میں مزید اضافے اور تنقید کے بعد طب کو باقاعدہ علم کا درجہ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں طب کو حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ قرار دیا گیا تھا:
وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-(آل عمران 49) اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں۔
محققین کی رائے ہے کہ حکیم جالینوس کے زمانے میں کیونکہ انسانوں کی چیر پھاڑ یعنی dysession کی ممانعت تھی لہذا اس دور کے مشاہدے میں جو کمزوریاں تھیں وہ مسلمان اطباع نے اس لیے پوری کی کہ انہیں تمام وسائل اور ہر طرح کی تحقیق کی ازادی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے قران دوسرا حدیث اور تیسرا اللہ کے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے ہوئے اپنی تخلیق کے علم کی نشر و اشاعت ان کی اولاد یعنی حضرت علی کی نسل میں پیدا ہونے والے امامین کے ذریعے ہوئی جس سے دور جدید کی سائنسی ترقی ممکن ہوئی۔ اگر غور کریں تو سنہری دور کے تمام مسلم اہل علم کا تعلق امامین کے سلسلہ تلامذہ سے تھا۔
لہذا اج سب سے پہلے ہم یہ جائزہ لیں گے کہ انسانی اعضاء کی تشریح یعنی human anatomy قران حدیث اور اقوال ائمہ کی روشنی میں کس طرح واضح ہوئی۔
جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی کہ عیسائیت کے دور عروج میں اگرچہ دیگر یونانی علوم کے ساتھ ساتھ فلسفے اور طب نے خاصی ترقی کی لیکن کیونکہ انسانوں کی چیر پھاڑ اخلاقی طور پر ممنوع تھی اس لیے مشاہدے کا شدید فقدان تھا لہذا وہ نظام اور اعضاء جو انسانوں اور حیوانوں میں مختلف تھے ان کا اندازہ نہیں کیا جا سکا تھا اور دوسرا بہت سی ایسے حقائق جو اج کی جدید تحقیق الٹرا ساؤنڈ اور سٹی سکین کی جدید مشینری کے استعمال کے باوجود اج بھی انسانی مشاہدے سے پوشیدہ ہیں۔ ان حقائق کا علم خالق کائنات نے خصوصا اپنے ان بندوں کے لیے جو اس سے اور اس کے نبیوں اور رسولوں سے محبت رکھنے والے اور اس کے بتائے گئے صراط مستقیم پر چلنے کے طالب ہیں، کے لیے اپنی کتاب اور نبی اور ان کی اولاد کی احادیث میں واضح کر دیا ہے.
*قران*
سب سے پہلے تو قران انسان کی نصیحت کے لیے بہت سے مقامات پر اس کی پیدائش کے مراحل بیان کرتا ہے جن میں سے چند ایک ایات یہ ہیں;
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِن كُنتُم فى رَيبٍ مِنَ البَعثِ فَإِنّا خَلَقنـٰكُم مِن تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ مِن عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُضغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُم ۚ وَنُقِرُّ فِى الأَرحامِ ما نَشاءُ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى…5 ﴾… سورة الحج
"لوگو! تم (دوبارہ) جی اٹھنے کے بارے میں شک میں ہو تو (اس بات پر غور کرو) ہم نے تمہیں (کس چیز سے) پیدا کیا؟ مٹی سے۔ پھر( تمہاری پیدائش کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا؟)نطفہ سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے (جو ) شکل والی (بھی ہوتی ہے) اوربے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر (اپنی ذات کی) کارفرمائیاں ظاہر کردیں۔ پھر (دیکھو) ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ( کہ تکمیل تک پہنچائیں) اسے ایک مقررہ میعاد تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔”
﴿الَّذى أَحسَنَ كُلَّ شَىءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلقَ الإِنسـٰنِ مِن طينٍ 7 ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلـٰلَةٍ مِن ماءٍ مَهينٍ 8 ثُمَّ سَوّىٰهُ وَنَفَخَ فيهِ مِن روحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ وَالأَفـِٔدَةَ ۚ قَليلًا ما تَشكُرونَ 9 ﴾… سورة السجدة
” (وہی اللہ ہے) جس نے جو چیز بھی بنائی، خوب ہی بنائی۔ اور ا س نے انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھراس کی نسل نچڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی، پھر اس (کے پتلے ) کو (نک سک سے) درست کیا، پھر پھونک مار کر اس میں روح پیداکی، اور تم لوگوں کو کان، آنکھ، اور دل دیئے۔ ( اس پر بھی) تم لوگ کم ہی (اس کا) شکر کرتے ہو۔”
خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنها زَوجَها وَأَنزَلَ لَكُم مِنَ الأَنعـٰمِ ثَمـٰنِيَةَ أَزوٰجٍ ۚ يَخلُقُكُم فى بُطونِ أُمَّهـٰتِكُم خَلقًا مِن بَعدِ خَلقٍ فى ظُلُمـٰتٍ ثَلـٰثٍ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَفونَ 6 ﴾… سورة الزمر
"اسی اللہ نے تم لوگوں کو(آدم کے) تن واحد سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایااور تمہارے لئے آٹھ قسم کے مویشی پیدا کئے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے(اور بتدریج) تین تاریکیوں میں ایک شکل کے بعد دوسری شکل (دیتا چلا جاتاہے) یہی اللہ تو تمہارا ربّ ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم لوگ (حق سے) کدھر پھر ے جارہے ہو۔
وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن سُلـٰلَةٍ مِن طينٍ ١٢ ثُمَّ جَعَلنـٰهُ نُطفَةً فى قَرارٍ مَكينٍ ١٣ ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظـٰمًا فَكَسَونَا العِظـٰمَ لَحمًا ثُمَّ أَنشَأنـٰهُ خَلقًا ءاخَرَ ۚ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحسَنُ الخـٰلِقينَ 14 ﴾… سورة المومنون
"اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھرہم نے اسے ایک محفوظ جگہ نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کو خون کا لوتھڑا بنا دیا۔ ہم ہی نے پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایا، پھر (دیکھو کس طرح) ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر پیدا کردیا۔ پھر (کیا ہی) بابرکت ہستی ہے اللہ( کی) تمام صناعوں سے بہتر صناع۔”
اسی طرح اس آیت میں حمل آور دودھ پلانے کی کم سے کم مدت 30 ماہ یعنی 6 ماہ جمع رضاعت کی مدت 24 ماہ بتائی گئی ہے؛
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ اِحْسَانًا ۖ حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَـمْلُـهٝ وَفِصَالُـهٝ ثَلَاثُوْنَ شَهْرًا ۚ حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٝ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِىٓ اَنْ اَشْكُـرَ نِعْمَتَكَ الَّتِىٓ اَنْعَمْتَ عَلَـىَّ وَعَلٰى وَالِـدَىَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَـرْضَاهُ وَاَصْلِحْ لِـىْ فِىْ ذُرِّيَّتِىْ ۖ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (الاحقاف 15)
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا، تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح کر، بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ حیات بعد الموت پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ اس بات کا سخت استہزا اڑاتے تھے۔لہذا کئی مقامات پر قران پاک میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے انسان کو ایک بار پیدا کیا ہے اسی طرح دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔مثلا سورۃ عبس میں اللہ تعالی نے انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کو زمین سے سبزے کی پیدائش سے کچھ اس طرح تشبیہ دی ہے؛
مِنْ اَيِّ شَىْءٍ خَلَقَهٝ (18)
اس نے کس چیز سے اس کو بنایا۔
مِنْ نُّطْفَةٍ خَلَقَهٝ فَقَدَّرَهٝ (19)
ایک بوند سے اس کو بنایا پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا۔
ثُـمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٝ (20)
پھر اس پر راستہ آسان کر دیا۔
ثُـمَّ اَمَاتَهٝ فَاَقْـبَـرَهٝ (21)
پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر میں رکھوایا۔
ثُـمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٝ (22)
پھر جب چاہے گا اٹھا کر کھڑا کرے گا۔
كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٝ (23)
ایسا نہیں چاہیے (جو اس نے کیا) اس نے تعمیل نہیں کی جو اس کو حکم دیا تھا۔
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖ (24)
پس انسان کو اپنے کھانے کی طرف غور کرنا چاہیے۔
اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا (25)
کہ ہم نے اوپر سے مینہ برسایا۔
ثُـمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (26)
پھر ہم نے زمین کو چیر کر پھاڑا۔
فَاَنْبَتْنَا فِيْـهَا حَبًّا (27)
پھر ہم نے اس میں اناج اگایا۔
اسی طرح سورۃ طارق میں بھی پہلے دمدار ستارے کی قسم اٹھا کر انسان کو اس کی تخلیق کچھ اس طرح یاد دلائی گئی ہے؛
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ (1)
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2)
اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔
اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ (3)
وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْـهَا حَافِظٌ (4)
ایسی کوئی بھی جان نہیں کہ جس پر ایک محافظ مقرر نہ ہو۔
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5)
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ (6)
ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ (7)
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
اِنَّهٝ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ (8)
بے شک وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے۔
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ (9)
جس دن بھید ظاہر کیے جائیں گے۔
شاید اس زمانے کے مفسرین دمدار ستارے اور انسان کی تخلیق کے باہمی تعلق کو نہ سمجھ سکے ہوں لیکن جدید تحقیق نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ تخلیق کے ابتدا میں sprm کی شکل بالکل دمدار ستارے کی طرح ہوتی ہے.
اسی طرح سورۃ نحل میں بتایا گیا ہے کہ ممالیہ میں دودھ کس طرح پیدا ہوتا ہے:
وَاِنَّ لَكُمْ فِى الْاَنْعَامِ لَعِبْـرَةً ۖ نُّسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِىْ بُطُوْنِهٖ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّـبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّارِبِيْنَ (النحل66)
اور بے شک تمہارے لیے چارپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے، ہم ان کے جسم سے خون اور گوبر کے درمیان خالص دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔
اس ایت میں بتا دیا گیا ہے کہ وہ غذائیں جو فضلہ اور خون پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں دودھ پلانے والی ماؤں میں انہی غذاؤں کی وجہ سے اللہ تعالی کے ایک نظام کے تحت دودھ بنتا ہے۔
سورة العلق کی آیت نمبر 15 اور 16 کے مطابق؛
كَلَّا لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) ترجمہ: “ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے، ایک جھوٹی خطاکار پیشانی۔”
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے جب وہ ایک پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار بول رہا ہے، اسکا جواب سائنس دیتی ہے۔ ہمارے دماغ میں ایک جگہ ہے جسکو Cerebrum کہتے ہیں اور یہ بالکل پیشانی کے بیچھے واقع ہے، سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ یہ frontal lobe دماغ کا وہ حصہ ہے جسکے ذریعے ہم اعمال کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، اور نیک اور برے اعمال کا بھی صدور اس ہی حصے سے ہوتا ہے، جھوٹ اور سچ کا بھی۔ لہذا قرآن کی یہ بات سائنسی اعتبار سے بھی درست ہے جب وہ اس فرد کی پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار کہہ رہا ہے۔
اسی طرح قران میں بہت سے ایسے حقائق بتائے گئے ہیں جو کہ ابھی جدید تحقیق بھی انہیں ثابت نہیں کر سکی مثلا سورہ فصلت کے مطابق بروز محشر انسان کی جلد ہاتھ اور پاؤں کا اس کے خلاف گواہی دینا؛
حَتّـٰٓى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْـهِـمْ سَمْعُهُـمْ وَاَبْصَارُهُـمْ وَجُلُوْدُهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (20)
یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آ پہنچیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں گواہی دیں گی جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِـمْ لِمَ شَهِدْتُّـمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوٓا اَنْطَقَنَا اللّـٰهُ الَّـذِىٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَىْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (21)
وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی، وہ کہیں گی کہ ہمیں اللہ نے گویائی دی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے اور اسی نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
اسی طرح سورہ اسراء میں اللہ تعالی نے ہمیں اس ایت میں اخرت کی جواب دہی کا سب سے ٹھوس ثبوت دیا ہے؛
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(13)اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاﭤ(14)
اور ہر انسان کا پرندہ ہم نے اس کے گلے میں لگادیا ہے اور ہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔۔( فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔
اس ایت کی تفسیر مختلف مفسرین نے اپنی سمجھ کے مطابق کی ہے لیکن اگر اج ہم گہرائی سے لی ہوئی انسان کے وائس باکس میں موجود trechia کی سامنے کی تصویر دیکھیں تو ہمیں دو پروں والی ایک شبہ واضح نظر اتی ہے۔
*حدیث نبوی*
اللہ تعالی کا یہ دستور رہا ہے کہ اپنے پیغمبروں کے ہاتھ جو اپنا پیغام اپنے بندوں کے لیے اتارا اس کی وضاحت صرف وہی نبی اور رسول ہی کر سکتے تھے۔ اسی لیے کتاب کے ساتھ سنت بھی لازم ہو ملزوم ہے۔مثلا اگر اللہ تعالی نے نماز کا حکم دیا ہے تو اس کے پڑھنے کے ادا کرنے کا طریقہ اپنے نبی کے ذریعے لوگوں کو سکھایا اسی طرح قران کی بہت سی ایات کی وضاحت عام انسانوں کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث میں سے ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر سورۃ عبس کی ایت کی وضاحت صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے؛
(مرفوع) حدثني محمد، اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” ما بين النفختين اربعون، قال: اربعون يوما، قال: ابيت، قال: اربعون شهرا، قال: ابيت، قال: اربعون سنة، قال: ابيت، قال: ثم ينزل الله من السماء ماء، فينبتون كما ينبت البقل، ليس من الإنسان شيء إلا يبلى إلا عظما واحدا وهو عجب الذنب، ومنه يركب الخلق يوم القيامة”.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہو گا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
دوسری جگہ کچھ اس طرح درج ہے؛
ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی، لوگوں نے کہا، وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمہاری پیدائش ہوگی“ ۔ [اسنادہ ضعیف ولہ اصل صحیح:صحیح بخاری:4935]
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ڈی این اے کی وضاحت کی ہے جس سے اج کے دور میں کلوننگ ممکن ہو گئی ہے. اگر انسان اس رائی برابر چیز سے دوسرے انسان پیدا کر سکتا ہے تو کیا اللہ تعالی انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے؟
اسی طرح سورہ مومنون کی آیت نمبر 12 تا 14 کی وضاحت کے لئے صحيح البخاري”کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا الحسن بن الربيع، حدّثنا أبو الأحوص عن الأعمش عن زيد بن وهب، قال عبد الله: حدّثنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- -وهو الصّادق المصدوق-، قال: إنّ أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوماً، ثمّ يكون علقة مثل ذلك، ثمّ يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله ملكاً فيؤمر بأربع كلماتٍ، ويقال له: اكتب عمله ورزقه وأجله وشقي أو سعيد، ثمّ ينفخ فيه الروح، فإنّ الرجل منكم ليعمل حتّى ما يكون بينه وبين الجنّة إلّا ذراع، فيسبق عليه كتابه، فيعمل بعمل أهل النار، ويعمل حتّى ما يكون بينه وبين النار إلّا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل أهل الجنّة”.
(صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، 4/111، رقم:3208/كتاب أحاديث الأنبياء، باب خلق آدم، 4/133، رقم:3332/ كتاب القدر، باب في القدر، 8/122، رقم:6594، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’حضرت عبد اللہ(ابنِ مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا(اور وہ خود بھی سچے ہیں، (اللہ تعالی کی طرف سے بذریعہ وحی) سچ باتیں بتائے ہوئے ہیں): بلاشبہ تم میں سے ہر ایک شخص کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) وہ چالیس دن تک ماں کے پیٹ میں (نطفہ کی شکل میں) جمع رہتا ہے(یعنی استقرارِ حمل کے بعد چالیس دن تک نطفہ میں کوئی خاص تغیر نہیں آتا)،پھر اتنے ہی دنوں (یعنی چالیس دن )کے بعد وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے ،پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا بن جاتا ہے ۔ پھر اللہ تعالی( اس کے پاس) ایک فرشتہ بھیجتے ہیں ،جسے چار باتوں(کے لکھنے ) کا حکم دیا جاتا ہے،چنانچہ اسے کہاجاتا ہے:لکھ ۱۔اس کا عمل،۲۔اس کی روزی (کی مقدار)،۳۔اس کی موت کا وقت،۴۔اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔بلاشبہ تم میں سے ایک آدمی(جنتیوں جیسے) عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ (کا فاصلہ)رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں جیسےکام کرنے لگتا ہے( اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے)۔اور تم میں سے ایک آدمی (دورخیوں جیسے)عمل کرتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ(کا فاصلہ) رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے او روہ جنتیوں جیسے عمل کرنے لگتا ہے(اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے)۔
اگر anatomy کے بارے میں احادیث کی بات کی جائے تو عرب کے لوگ چونکہ شعر و شاعری کے علاوہ زیادہ چیزوں سے واقف نہ تھے اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر اپنے عمل سے حفظان صحت کے اصول اور چیدہ چیدہ بیماریوں کے غذا کے ذریعے علاج کے طریقے عام فہم زبان میں بتائےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اناٹمی کے متعلق ہمیں زیادہ احادیث نہیں ملتی لیکن پھر بھی آسان زبان میں انہوں نے حفظان صحت کے اصول بتانے کے لیے تھوڑی سی وضاحت کی ہے مثلا بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
(ألا وإن فی الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وھی القلب)
یعنی:خبردار!انسان کے جسم میں ایک لوتھڑاہےاگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوجائےگا، اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگاڑ کا شکار ہو جائے گا، خبردار!وہ لوتھڑا انسان کادل ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث نمبر 546 کے مطابق:
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔
اسی طرح نبی اکرم صلعم نے ایک جگہ بہت سی بیماریوں کی جڑ کچھ یوں بتائی ہے؛
المعدة بيت الداء والحمية أصل الدواء
”معدہ بیماریوں کا گھر ہے اور پرہیز دواء کی اصل ہے۔“
*اقوال ائمہ کرام*
جیسا کہ پہلے میں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے جو کلام اتارا اس کی وضاحت وہی نبی یا رسول اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعے کرتا تھا. اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے اخری نبی ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے. لہذا اس وقت کے دور کے مسلمان رہنمائی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے لیکن بعد کے مسلمانوں کی رہنمائی کس طرح ہو؟
اس کا انتظام اللہ تعالی نے یوں کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ولایت اور امامت رکھ دی تاکہ یہ انے والے وقتوں میں مخلوق کی رہنمائی کے لیے کافی ہوں۔
خالق کائنات کے دیے ہوئے اس علم کو اگرچہ بہت سے محدثین نے جمع کیا اور اس کی اشاعت کی لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ ایک طرف اپ کے چچا زاد بھائی اور داماد ہونے کے ناطے اپ سے سب سے زیادہ قریب تھے اور دوسرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چونکہ کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے اپ کی اولاد حضرت علی کی نسل ہی تھی جس میں وہ علم منتقل ہوتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر فرمایا کہ اَنَا مدِینَة العِلمِ وَعَلِیّ بَابُھَا…… (حدیث) یعنی ”میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ”
اسی طرح امام صدوق نے اپنی کتاب غلل الشرائے میں حضرت علی کے حوالے سے ایک خوبصورت روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے جب حضرت علی سے یہ پوچھا کہ اپ کا پیٹ کیوں بڑا ہے تو انہوں نے بیان کیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے بہت سے باب تعلیم کیے اور ہر باپ سے ہزار باب کھل گئے لہذا یہ علم میرے سینے میں جگہ نہ پا کر پیٹ میں منتقل ہو گیا۔
لہذا یہاں پر ہم human anatomy کہ ان حقائق کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے جن کی بنیاد پر اگے انے والے مسلمان اہل علم نے علم طب کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر امام رضا اور امام حسن عسکری تک بہت سے محدثین نے روایات جمع کی ہیں لیکن احکامات اور واقعات کی وجوہات اور محرکات بتانے کے لیے سب سے اہم دستاویز شیخ صدوق کی علل الشرائع ہے۔اس کتاب میں اگرچہ کچھ تاریخی روایات کمزور دکھائی دیتی ہیں لیکن مجموعی طور پر نہ صرف علم کے تمام شعبوں کی بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں بلکہ بہت سے ابہام بھی دور ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم روایات ‘انسانی طبع و شہوات و خواہشات کے اسباب”کہ موضوع کے تحت دی گئی ہیں۔ ان روایات میں خالق کائنات کی تخلیق کی تفصیلات اس طرح بتائی گئی ہیں کہ انسانی مزاج اور بیماریوں وغیرہ کے متعلق مکمل خاکہ انسان کے ذہن میں ا جاتا ہے۔ طوالت کے سبب یہاں میں ان روایات میں سے کچھ نکات پیش کر رہی ہوں۔
ان بزرگان دین کے اقوال کے مطالعے سے سب سے پہلے تو انسان کو ایک بہت بڑے ابہام سے نجات ملتی ہے۔ وہ ہے دارون کا نظریہ ارتقا جو کہ ثبوت نہ ہونے کی بنا پر کئی سال گزرنے کے باوجود صرف نظریے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن چونکہ بہت سی جگہوں سے انسان اور بندر کے درمیان کی مخلوق جیسے ڈھانچے ملے ہیں اس لیے اس نظریے سے جان نہیں چھڑائی جا سکی یہی وجہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ممکن نہیں ہے، انسان اس نظریے پر کبھی کبھی یقین کرنے لگتا ہے۔ لیکن اس موضوع کے تحت سب سے پہلی حدیث سے اس نظریے سے انسان کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ راوی نے امام جعفر صادق کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے اس کے مطابق جب زمین پر جن اور نسناس کو بستے ہوئے سات سات ہزار سال گزر گئے تو اللہ نے چاہا کہ ایک مخلوق کو اپنے ہاتھ سے خلق فرمائے۔اس کے بعد اللہ تعالی کا فرشتوں سے وہ مشہور مکالمہ ہے جو کہ سورۃ البقر میں دیا گیا ہے یعنی جب اللہ تعالی نے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا تو فرشتوں نے اللہ سے یہ کہا : وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَـةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۖ قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْـهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْـهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّـحُ بِحَـمْدِكَ وَنُـقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ اِنِّىْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (30) (اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔) پھر اللہ تعالی نے ارادہ کیا کہ”ان میں نسناس کی اپنی زمین میں سے بیخ کنی کر دوں گا اور نافرمان وہ سرکش جنوں کو اپنی اس مخلوق سے ہٹا کر انہیں ہوا یا زمین یہ دور دراز حصوں میں ساکن کر دوں گا تاکہ وہ ہماری مخلوق کے ہمسایہ نہ رہیں.” جنوں سے تو ہم واقف ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق ہے لیکن نسناس کی سے مراد امام علیہ السلام کا pre-Adamites کی جانب اشارہ ہے۔ نسناس سے مراد انسان اور بندر کے درمیان کی مخلوق ہے، اس سے مراد ایک بندر نما مخلوق لی گئی ہے۔
اسی روایت میں آگے کچھ یوں لکھا ہے: پھر اللہ تعالی نے شیریں و خوشگوار پانی سے ایک چلو لیا اور اس کو خوب متھا وہ بستہ ہو گیا تو اس سے کہا میں تجھ سے انبیاء، مرسلین و صالحین، ائمہ مجتہدین اور جنت کی طرف دعوت دینے والوں اور ان کے متبعین کو تا قیامت پیدا کرتا رہوں گا، مجھے کسی کی پرواہ نہیں اور جو کچھ میں کروں مجھ سے پوچھنے والا کوئی نہیں بلکہ انہی لوگوں سے بعض پرس کی جائے گی یعنی مخلوقات سے۔ پھر اللہ تعالی نے آب تلخ اور نمکین سے ایک چلو لیا اور اسے متھا وہ بستہ ہو گیا تو کہا کہ میں تجھ سے جباروں، فرعونوں سرکشوں شیاطین کے بھائیوں اور جہنم کی طرف دعوت دینے والوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کو پیدا کروں گا اور مجھے کسی کی پرواہ نہیں اور جو کچھ میں کروں گا مجھ سے کوئی بعض پرس کرنے والا نہیں بلکہ انہی سے باز پرس کی جائے گی۔ اپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان میں بداء کی شرط لگائی اور اصحاب یمین میں بدا کی شرط نہیں لگائی پھر اللہ تعالی نے دونوں پانیوں کو ملا دیا اور ان دونوں کو متھ کر اپنے عرش کے سامنے ڈال دیا اور اب دونوں پانی مٹی کے جوہر تھے پھر شمال و جنوب مشرق و مغرب چاروں طرف کے ملائکہ کو حکم دیا کہ ان کو ٹھیک کریں اور ان پر ہلکی ہلکی اواز چلائیں انہیں ریزہ ریزہ کریں اور انہیں بکھیر دیں اور ان میں چار طرح کے طبائع ڈال دیں یعنی صفرا، سودا، بلغم اور خون۔ پس شمال جنوب مشرق و مغرب کے ملائکہ اس پر چلے اور اس میں چاروں طبائع ڈال دی۔ پس بدن کے اندر صفرا شمال کے ملائکہ کی طرف سے بلغم مشرق کے ملائکہ کی طرف سے سودا مغرب کے ملائکہ کی طرف سے اور خون جنوب کے ملائکہ کی طرف سے پیدا ہو گیا۔ خلقت تمام ہوئی اور بدن کامل ہو گیا بس صفرا کی وجہ سے اس میں حب حیات اور طویل (عمل امید) حرص لازم ہو گیا اور بلغم کی وجہ سے کھانے پینے کی خواہش اور نرمی اور رقق لازم ہو گیا اور سودا کی وجہ سے غصہ بے وقوفی شیطنیت سرکشی اور نافرمانی و عجلت لازم ہو گئی اور خون کی وجہ سے اس میں عورتوں کی محبت افعال حرام اور شہوت لازم ائی۔ راوی کا بیان ہے کہ مجھے جابر نے بتایا کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا میں نے یہ حضرت علی علیہ السلام کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں تحریر کیا ہوا پایا۔
اسی موضوع کے تحت امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث ہے کہ جگر میں غلظیت (گاڑھا پن یا سختی) ہوتی ہے. پھیپڑے میں حرارت ہوتی ہے عقل کا مسکن قلب ہے.
امام رضا کے حوالے سے چاروں انسانی طبائع کی خصوصیات کچھ اس طرح بیان کی گئی ہیں”انسانی طبائع چار ہیں ان میں سے ایک بلغم ہے اور یہ جنگجو اور دشمن ہے۔ دوسرا خون ہے اور یہ غلام ہے مگر کبھی کبھی غلام اپنے مالک کو قتل کر دیتا ہے۔ تیسرا صفرا ہے جو بادشاہ ہے اور ان کو چلاتا ہے۔ چوتھے سودا اس پہ افسوس ہے جب زمین پہ زلزلہ اتا ہے تو اس کی ہر شے زلزلے کی نظر ہو جاتی ہے۔
اسی طرح امام جعفر صادق نے اسی مضمون کے تحت انسانی جسم کے نظام کی کچھ اس طرح وضاحت کی ہے کہ انسان اگ کی وجہ سے کھانے اور پینے لگا اور نور کی وجہ سے دیکھنے اور کام کرنے لگا اور ہوا کی وجہ سے سونگنے اور سننے لگا اور پانی کی وجہ سے کھانے اور پینے کی لذت حاصل کرنے لگا اور روح کی وجہ سے حرکت کرنے لگا۔ اگر اس کے معدے میں اگ نہ ہوتی تو جو کچھ کھانا وہ ہضم نہیں ہوتا یا یہ فرمایا کہ کھانا اور پینا اس کے پیٹ میں خشک پڑا رہتا اور اگر ہوا نہ ہوتی تو جب اگ اس کے معدے میں ہے مشتعل نہ ہوتی اور اس کے معدے کو جلا ڈالتی اور اگر نور نہ ہوتا تو دیکھ نہ سکتا اور نہ سمجھ سکتا اگرچہ صورت اس کی مٹی کی ہے مگر اس کے جسم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے جیسے کوئی درخت ہو اور اس کے جسم میں خون جیسے زمین میں پانی ہو جس طرح زمین بغیر پانی کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح انسان کا جسم بھی بغیر خون کے قائم نہیں رہ سکتا اور ہڈی کا گودا درحقیقت خون کا مکھن اور بالائی جھاگ ہے پس اس طرح انسان دنیا اور اخرت کی چیزوں سے مل کر بنا پیدا ہوا ہے اور جب تک اللہ تعالی ان دونوں چیزوں کو جمع رکھے گا زمین پر وہ باحیات رہے گا۔ اس لیے کہ وہ اسمان سے زمین پر نازل کیا گیا ہے اور جب اللہ تعالی ان دونوں کو جدا کرے گا تو یہی جدائی ہے ۔اخروی چیز اسمان کی طرف واپس چلی جائے گی پس زمین میں اس کی حیات اور اسمان میں اس کی موت ہے اس لیے کہ جسم اور روح دونوں جدا ہو جائیں گے اب روح اور نور دونوں اپنی سابقہ منزل پہ پہنچ جائیں گے اور جسم یہیں چھوٹ جائے گا اس لیے کہ دنیاوی چیز ہے بلکہ جسم دنیا میں مٹ جائے گا اس لیے کہ ہوا پانی کو جذب کر لے گی تو وہ خشک ہو جائے گی اور اب صرف مٹی باقی رہ جائے گی اور وہ چند دنوں میں بوسیدہ ہو کر چور چور ہو جائے گی اور ہر چیز اپنے سابق اصل کی طرف واپس لوٹ جائے گی۔ اور روح حرکت کرتی ہے نفس کے ذریعے اور نفس میں حرکت ہوتی ہے ریح کے ذریعے۔ امام علیہ السلام آگے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی دو طرح کی سزا دیتا ہے۔ ایک سزا جس کا تعلق روح سے ہے اور دوسری سزا یہ ہے کہ بعض لوگوں کو بعض پر مسلط کر دیتا پے۔ روحانی سزا بیماری، فکر اور افلاس ہے۔
دیگر تمام علما اور محدثین کے بیانات میں روحانی اور جسمانی بیماریوں کی الگ الگ وضاحت ملتی ہے تاہم اسی موضوع کے تحت امام جعفر الصادق ہی کی ایک اور حدیث ہے جس جس میں چند سطروں میں ہی آنے والی نسلوں پر واضح کر دیا گیا ہے کہ روحانی اور جسمانی بیماریاں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت یہی روحانی بیماریاں یعنی گناہ اور خبائث ہی جسمانی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے "انسان کے لئے اپنے نفس کا عرفان یہ ہے کہ وہ اس کے چار طبائع چار ستونوں اور چار ارکان کی معرفت حاصل کرے۔ اس کے چار طبائع خون و سود و صفرا اور بلغم ہیں اور اس کے چار ستون عقل اور (اس کی وجہ سے زیرکی) فہم و حفظ اور علم ہیں اور اس کے چاروں ارکان نور و نار و روح و ما (یعنی پانی) ہیں۔ پس نور کے ذریعے انسان دیکھتا سنتا اور سمجھتا ہے۔ نار کے ذریعے کھاتا پیتا ہے، روح کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور پانی کے ذریعے چیزوں کا ذائقہ محسوس کرتا ہے۔ یہ انسان کی بنیادی شکل ہے۔ اب اگر وہ عالم و حافظ و زکی و زیرک و صاحب فہم ہے تو اسے خالص وحدانیت اور اطاعت و اقرار کے ساتھ یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس جگہ پر ہے، یہ اشیاء کہاں سے آتی ہیں، وہ یہاں کس مقصد کے لئے آیا ہے اورکسی طرف جانے والا ہے۔ اور کبھی نفس بحالت حرارت اس میں عمل کرتا ہے اور کبھی کبھی بحالت برودت(خالی ٹھنڈک) اس میں عمل کرتا ہے۔ پس اگر حرارت ہے تو تکبیر، اکڑ، چستی، قتل، چوری، سرور، خوشی، فسق و فجور، زنا، خوشی سے جھومنا اور شان بگھارنا، یہ سب کچھ ہو گا۔ اور اگر برودت ہے تو پھر غم، حزن، عاجزی، پژمردگی، نسیان اور مایوسی ہے اور یہی وہ عوارض ہیں جو مختلفہ بیماریوں کو راستہ دیتے ہیں اور یہ بیماریاں اور اور اس طرح شروع ہوتی ہیں جب انسان کسی کام میں غلطی یا زیادتی کرتا ہے اور اس غلطی میں اس کے مطابق کھا پی لیتا ہے اور ایسے وقت کھا پی لیتا ہے جو اس کے لئے نامناسب ہوتا ہے( مثلا سردی میں اوپر تلے ٹھنڈک اور کھٹی چیزیں کھا لینا یا گرمی میں گرم اور مرغن غذا کھا لینا) چناچہ اس سے بہت سے امراض و اقسام پیدا ہوتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ انسان کے تمام اعضاء جوارح اور رگیں یہ سب اللہ کی فوج ہیں جو انسان پر تعینات ہیں۔ جب اللہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس مرض میں انسان کو مبتلا کرے تو اس کو اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اللہ چہاں چاہتا ہے یہ فوج اس جگہ سقم پیدا کر دیتی ہے۔”
اسی مضمون کے تحت ایک روایت ادم کی خلقت کے متعلق توریت کے حوالے سے بھی کچھ یوں بیان کی گئی ہے؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں نے ادم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کے جسم میں چار چیزیں رکھیں۔ پھر ان سب کو بطور وراثت ان کی اولاد میں باقی رکھا۔ جو قیامت تک ان کے جسم کے ساتھ نشونما پاتی رہیں گی۔ رطوبت، یبوست(خشکی)، حرارت، برودت(ٹھنڈک)۔ اور یہ اس لیے کہ ان کو میں نے مٹی اور پانی سے پیدا کیا اور اس میں نفس و روح کو ودیعت کر دیا پس ہر جسم میں خشکی مٹی کی وجہ سے ائی اور رطوبت پانی کی وجہ سے ائی اور حرارت نفس کی وجہ سے اور ٹھنڈک روح کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ پھر جسم کی اس ابتدائی حرکت کے بعد میں نے اس جسم میں چار چیزیں پیدا کی ہیں اور میرے حکم سے جسم انہی چار چیزوں پر قائم ہے اور بغیر ان کے قائم نہیں رہ سکتا یہ چاروں اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اور وہ سودا و صفرا و بلغم و خون ہیں۔ ان چار چیزوں کو ان چار چیزوں میں رکھا یعنی خشکی کو سودا میں رکھا، رطوبت کو صفرا میں رکھا، حرارت کو خون میں رکھا اور ٹھنڈک کو بلغم میں رکھا۔ پس جسم میں یہ چاروں چیزیں اعتدال پر رہیں گی اور ان میں سے کوئی چیز کم یا زیادہ نہیں ہوگی تو اس کی صحت کامل رہے گی اور ان میں سے ایک بھی چیز زیادہ ہو گئی تو اور تینوں کو مغلوب کر دے گی اور جسم میں جس قدر زیادہ ہوگی اس کی وجہ سے سقم پیدا ہو جائے گا۔ اگر کم ہوگی تو اس پر دیگر چیزوں کا دباؤ پڑے گا اور وہ کمزور پڑ جائے گی اور مشکل سے اس قابل رہے گی کہ ان تینوں کا ساتھ دے سکے۔ اور اللہ تعالی نے انسان کی عقل کو اس کے دماغ میں رکھا ہے اور اس کی مسرت کو اس کی طینت میں، اس کے غصے کو اس کے جگر میں، اس کے ارادے کو اس کے قلب میں، اس کی رغبت کو اس کے پھیپھڑے میں، اس کی ہنسی کو اس کے طحال میں، اس کی فرحت کو اس کے سینے میں، اس کے کرب کو اس کے چہرے میں رکھا۔
راوی کا قول ہے کہ بس وہ طبیب جو مرض اور دوا دونوں سے واقف ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مرض کیسے لاحق ہوتا ہے اور یہ چاروں اخلاط میں سے کس خلط کی زیادتی یا کمی کی وجہ سے ہے اور وہ اس جگہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا علاج ممکن ہے، جس خلط میں کمی ہے اس کو کیسے زیادہ کیا جا سکتا ہے، جس غلط میں زیادتی ہے اس میں کمی کس طرح کی جا سکتی ہے، تاکہ جسم اعتدال پر آ جائے اور وہ خلط جس میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے وہ دوسرے اخلاط سے اپنا توازن کیسے قائم رکھے۔ پھر یہی اختلاط جن سے یہ مرتب ہے انہی پر بنی ادم کے اخلاط کی داغ بیل پڑی ہے اور ان میں سے انسان کے اندر اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ بس مٹی سے عزم اور پانی سے نرمی اور حرارت سے حدت اور برودت سے جھکاؤ پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر یہ یبوست اگئی تو قوت و سختی ہوگی۔ اگر رطوبت کی طرف مائل ہے تو نرمی اور کمزوری اور اگر مائل بہ حرارت ہے تو اس کی حدت اوچھا پن و صفاہت بنے گی اگر مائل با برودت ہے تو اس کا جھکاؤ شک اور کند ذہنی کی طرف ہوگا اور اسکے اختلاط معتدل اور مساوی ہوں گے تو اس کی فطرت میں استقامت ہوگی اس کے کام میں قطعیت، عزم میں نرمی، تیزی اور حدت میں متانت ہوگی۔
اسی طرح یہاں پر امام جعفر صادق کے حوالے سے ایک روایت درج ہے جس میں جسم میں دل کو بادشاہ اور باقی تمام اعضاء کو اس کی فوج قرار دیا ہے اسی طرح کی ایک حدیث مشہور و معروف طبی نسخوں پر مبنی رسالہ ذہبیہ، جو کہ خلیفہ مامون نے امام رضا علیہ السلام سے لکھوایا تھا میں بھی موجود ہے۔اپنی تحریر میں امام رضا علیہ السلام نے بھی انسان کی مختلف کیفیات اور جذبات کو کچھ اعضاء کے ساتھ مخصوص کیا تھا۔اپنی تحریر میں وہ لکھتے ہیں؛
"رنج کی اصل تلی میں ہے اور خوشی کی گردوں اور معدے کی جھلی میں۔ان دونوں مقامات سے دو رگیں چہرے تک اتی ہیں یہی وجہ ہے کہ خوشی اور رنج کے اثار چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔”
بعد میں انے والے اطباع جیسے الرازی اور بو علی سینا وغیرہ نے انسانوں کے مختلف اختلاط کے لحاظ سے غصے، دکھ، حسد اور مایوسی کو بیماریوں کی بنیاد قرار دیا۔
انسانی جسم کے نظام کی وضاحت میں امام رضا علیہ السلام رسالہ ذہبییہ میں فرماتے ہیں؛
حرکات طبعی یہ ہیں ہضم، جماع، چلنا پھرنا، سونا اور ارام وغیرہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے بنیاد جسم کی چار طبیعتوں مزاجوں پر قرار دی ہے سودا، صفرا، خون اور بلغم۔ دو ان میں سے حار ہیں اور دو بارد پھر دو دو میں بھی اختلاف رکھ دیا ہے یعنی دونوں حار میں سے ایک رطب اور ایک یابس۔ علی ھذا دونوں باردوں میں پھر ان چاروں خلطوں کو جسم کے چار حصوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ سر، سینہ، پہلو اور پیٹ کا نیچے نیچے کا حصہ بس سر دونوں کان، دونوں انکھیں دونوں نتھنے (یعنی ناک) اور منہ اس سارے سلسلے میں خون کا غلبہ ہے. سینے میں بلغم اور ریاح کا غلبہ ہوتا ہے۔ پہلیوں میں خلط صفرا کا غلبہ ہوتا ہے اور پیٹ کے نیچے کے حصے میں سودا کا غلبہ ہوتا ہے۔ اے بادشاہ یہ بھی یاد رکھ کہ جو کیفیت انسان کی مختلف اوقات میں ہوتی ہیں وہ چار ہیں۔ پہلی وہ حالت ہے جو 15 سال سے 25 ویں سال تک رہتی ہے یہ زمانہ انسان کے شباب حسن اور خوبیوں کا ہے۔ جسم میں خون کا غلبہ ہوتا ہے دوسری وہ حالت ہے جو 25 سال سے شروع ہو کر 35 سال تک رہتی ہے اس میں بالعموم خلط صفرا غالب ہوتی ہے۔ جسمانی قوت کی انتہا کا ہی زمانہ ہے کیونکہ پھر ایسی قوت کبھی نہیں اتی 35 سال سے پھر تیسری حالت شروع ہوتی ہے یہ 60 سال تک رہتی ہے اس زمانے میں خلط سودا غالب ہوتی ہے۔ حکمت، موعظت، معرفت، ولایت انتظام امور، انجام بینی، صحت رائے، ثابت قدمی وغیرہ کا یہی زمانہ ہے۔ اس کے بعد چوتھی حالت شروع ہوتی ہے اس میں بلغم کا غلبہ ہوتا ہے وہ حالت جس میں انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ یہی ہے بڑھاپا عیش کا منفص زندگی کا وبال معلوم ہونا تمام قوتوں کا گھٹتے جانا جسم میں طرح طرح کی خرابیوں کا پیدا ہونا شروع ہو جانا اور انتہا اس کی ہوتی ہے کہ ہر شے کے متعلق ایسی بھول پیدا ہوتی ہے گویا اس سے کبھی واقف ہی نہ تھا۔
امام جعفر صادق کے حوالے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ انسانی جسم میں 360 رگیں ہیں جن میں سے 180 ساکن اور 180 متحرک ہیں اگر ساکن رگوں میں سے کوئی رگ متحرک ہو جائے تو انسان سو نہیں سکتا۔
جیسا کہ پہلے میں نے وضاحت کی کہ عیسائیت اور اس سے قبل طب یونانی کے دور میں انسانی چیر پھاڑ کی شدید ممانعت تھی لہذا بہت سے حقائق پوشیدہ تھے اور اس حقیقت کا ذکر حکیم جالینوس نے بھی ایک جگہ کیا تھا کہ حضرت عیسی اور حضرت موسی نے وجوہات بتائے بغیر انسانی جسم کے مسائل کے حل بتائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان ہستیوں نے ان حقائق پر زیادہ زور دیا ہے جو انسانوں اور جانوروں میں مختلف تھے خصوصاً انسانوں کے جسمانی نظام کی وضاحت سب سے زیادہ دی ہے۔
اس سلسلے میں امام جعفر صادق کی طب نصرانی اور طب ہندی سے گفتگو ان حضرات کے بودے دلائل کا جواب ہے جو قدیم تہذیبوں کو طب کی ترقی کا محرک قرار دیتے ہیں۔
"طب الصادق” "عمل الشرائع” اور دیگر کئی کتب میں طب نصرانی کے ساتھ امام علیہ السلام کی انسانی ہڈیوں کی وضاحت کچھ اس طرح درج ہے؛
"طبیبِ نصرانی نے بڑے اِحترام سے امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو(2) بازو، دو کلائی، دو (2)ران،دو(2) ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ(360)رگیں ، ہڈیاں،پٹھے، اور گوشت۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں ور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں۔ جن میں پینتیس قدم میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں۔ اور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں۔
اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔
اسی طرح طبیب ہندی کے ساتھ گفتگو متعدد کتب میں کچھ اس طرح درج ہے؛
امام جعفر صادق (ع) جب منصور کے دربار میں پہنچے تو وہاں ایک *طبیب ہندی* ایک کتاب، طب ہندی منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں۔ منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں۔
طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا، نہیں۔
اُس نے کہا، کیوں؟
آپ نے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔
اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں۔
طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟
امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔
طبیب ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے
امام:۔شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے
طبیب ہندی:۔اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے
امام:۔میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاوٴ ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے۔
طبیب: کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں۔
امام:۔اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟ طبیب:۔ ضرور پوچھئے۔
امام:۔یہ بتاوٴ کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں
طبیب:۔کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا
امام:۔اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔میں نہیں جانتا
امام:۔پیشانی پر خطوط کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں۔
طبیب:۔میں نہیں جانتا
امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں
طبیب:۔معلوم نہیں
امام:۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے
طبیب:۔مجھے معلوم نہیں
امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔مرد کے داڑھی کیوں ہے
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں۔
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں۔
طبیب:۔معلوم نہیں
امام:۔جگر گول کیوں ہے
طبیب:۔معلوم نہیں
امام:۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے۔
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ میں خدائے داناوبرتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں۔
طبیب:۔فرمایئے میں بھی مستفید ہوں
امام: غورسے سُن
1)۔آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے
2)۔سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائے
3)۔پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے۔
4)۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے۔
5)۔آنکھوں کے اوپر اَبرواِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے۔
6)۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے.
7)۔آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووٴں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔
8)۔ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔
9)۔ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں۔
10)داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔
11)۔آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں۔
12)۔ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے۔
13)۔ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔
14)۔دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔
15)۔پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔
16)۔جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔
17)۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔”
دورانِ خون کا یہ مسئلہ جو اطباء ِ مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اس کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے۔”
امام علیہ السلام نے اپنے شاگرد مفضل کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مفضل! ذرا غذا کے بدن میں پہونچنے پر غور کرو، اور دیکھو کہ اس حکیم مطلق نے اس عجیب کارخانہ کو کس حکمت اور تدبیر سے چَلایا ہے۔ غذا منھ کے ذریعہ پہلے معدہ میں جاتی ہے۔ پھر حرارتِ غریری اس کو پکاتی ہے اور پھر باریک رگوں کے ذریعہ جگر میں پہونچتی ہے۔ یہ رگیں غذا کو صاف کرتی ہیں تا کہ کوئی سخت چیز جگر کو تکلیف نہ پہونچا دے۔ کیونکہ جگر ہر عضو سے زیادہ نازک ہے۔ ذرا اللہ کی اس حکمت پر غور کرو کہ اُسنے ہر عضو کو کس قدر صحیح مقام پر رکھا ہے اور فُضلہ کے لئے کیسے ظروف(پِتہ، تِلّی اور مثانہ) خلق فرمائے تاکہ فُضلات جسم میں نہ پھیلیں اور تمام جسم کو فاسد نہ بنا دیں۔ اگر پِتہ نہ ہوتا تو زَرد پانی خون میں داخل ہو کر مختلف بیماریاں مثلًا یرقان وغیرہ پیدا کر دیتا۔ اگر مثانہ نہ ہوتا تو پیشاب خارج نہ ہوتا اور پیشاب خون میں داخل ہو کر سارے جسم میں زہر پھیلا دیتا۔”
نہ صرف انسانی جسم اور ہڈیوں کی بلکہ امام علیہ السلام نے جراثیم کی بھی وضاحت کر دی تھی۔”نور المشرقین من الحیات الصادقین” میں درج ہے؛
"جابر نے پوچھا جسم کے دشمن کون ہیں امام صادق نے جواب دیا جسم کے دشمن اتنی چھوٹی مخلوق ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتی یہ مخلوق جسم پہ حملہ کرتی ہے اور جسم میں بھی ایسی چھوٹی مخلوق موجود ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے نظر نہیں اتی اور جسم کے دشمنوں کے خلاف دفاع کرتی ہے جابر نے پوچھا بیماری پیدا کرنے والے جسم کے دشمن کون سے ہیں امام جعفر صادق نے جواب دیا ان کی اقسام کی تعداد بہت زیادہ ہے اسی طرح بدن کا دفاع کرنے والے بھی مختلف اقسام کے ہیں لیکن جو چیز انہیں تشکیل دیتی ہے وہ محدود ہے۔ جابر نے کہا اپ کی بات میری سمجھ میں نہیں ائی ان کی اقسام کیسے زیادہ ہیں اور جو چیزیں انہیں تشکیل دیتی ہے وہ محدود ہے۔ امام صادق نے فرمایا جو کتاب تم پڑھ رہے ہو وہ ہزاروں کلمات کی حامل ہے اور اس کتاب میں ہر کلمہ حروف سے لکھا گیا ہے لیکن جو حروف کلمات تشکیل دیتے ہیں وہ حروف تہجی محدود ہیں حرف تہجی کے چند گنے چنے حروف کے ساتھ ہزاروں کلمات لکھے جا سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک یا ان کلمات کا ہر فقرہ مخصوص معنوں کا حامل ہے ۔ہمارے جسم کے دشمن اور ان دشمنوں کے خلاف دفاع کرنے والے تمہاری کتاب کے ہزاروں کلمات کی مانند ہیں لیکن سب محدود ہیں جو چند گروہوں سے تشکیل پاتے ہیں جابر نے کہا اب میں سمجھا کہ اپ کا مطلب کیا ہے۔”
اج کل کا سنگین ترین مسئلہ پیدائشی نقائض اور زچگی کے سنگین ترین مسائل ہیں جو کہ سائنسی ترقی کے باوجود گزرتے وقت کے ساتھ سنگین ترین ہوتے گئے ہیں اور سائنس بھی ان مسائل کو صرف inheritance کا نام دے کر کوئی حل نکالنے سے قاصر ہے۔
لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مسائل کی وجوہات اور محرکات اج سے 1400 سال پہلے حضرت علی کو ایک نصیحت کرتے ہوئے تفصیل سے بیان کر دی تھیں جو کہ "علل الشرائع” کے باب نکاح میں بیان کیے گئے ہیں۔اس طویل حدیث کے مطابق زجگی کی پیچیدگیوں اور بانجھ پن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی دلہن پہلے ہفتے کھٹا سیب دھنیا سرکہ اور دہی سے پرہیز کرے ۔مزید اسی حدیث میں مباشرت کے اداب ، فطری طریقے، ضروری احتیاط اور مناسب وقت اور تاریخوں کا تعین کیا گیا ہے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ہم اللہ کے بتائے ہوئے اوامر اور نواہی اور دین فطرت سے اجتناب کر کے انسان کے بنائے ہوئے غیر فطری راستے پر چل کر معذور ایبنارمل اور سرکش اولاد کی صورت میں ساری عمر کی سزا بھگتتے ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو انسان اور جانور میں ہمیں یہ فرق نظر اتا ہے کہ جانوروں کی ناف نہیں ہوتی لہذا انسانوں اور جانوروں کی خلقت میں فرق بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہم جانوروں کو دیکھتے ہیں کہ ان کے اگلے پاؤں کے اندرونی طرف دو پیوند ہوتے ہیں جیسے داغ دیا گیا ہو یہ کیا ہے اور کیوں ہے اپ جناب علیہ السلام نے فرمایا کہ ماں کے پیٹ میں وہی اس کی تھوتھنی اور ناک رہتی ہے۔ سوائے اولاد ادم کے وہ اپنی ماں کے پیٹ میں استادہ رہتا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا قول ہے لقد خلقنا الانسان فی کبد(البلد 4) (یعنی ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا) اور وہ (یعنی چوپایہ) ابن ادم کے برابر نہیں ہے کہ جس کا سر اس کے دبر کی جانب ہوتا ہے اور اس کے دونوں ہاتھ اس کے سامنے ہوتے ہیں۔
ان طبی حقائق کے بیان کے علاوہ بھی علل الشرائع میں مختلف احکامات اور حقائق کی وجوہات بتاتے ہوئے ائمہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے انسانی وجود کے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جن میں سے بہت سے ایسے ہیں جن سے اج کی سائنسی ترقی کے باوجود بھی انسان ناواقف ہے مثلا؛
-راوی بیان کرتا ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت سلمان رحمت اللہ نے حضرت علی علیہ السلام سے اس بچے کی غذا کے متعلق دریافت کیا جو شکم مادر میں ہے تو اپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حاملہ عورت کے حیض کو روک لیا ہے اسی کو شکم مادر میں بچے کی غذا بنا دیا ہے۔
ـ راوی بیان کرتا ہے کہ امام علیہ السلام نے حمام کے اداب تعلیم فرماتے ہوئے بتایا؛ حمام میں ہرگز کسی کروٹ نہ لیٹو اس سے گردن کی چربی پگھل جاتی ہے۔ حمام میں ہرگز جت نہ لیٹو اس سے پیٹ کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ حمام میں کبھی کنگی نہ کرو اس سے بال کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ حمام میں ہرگز مسواک نہ کرو اس سے دانت کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اپنا سر مٹی سے کبھی نہ دھونا اس سے چہرہ بدشکل ہو جاتا ہے۔ اپنا چہرہ اور سر کبھی ازار اور تہبند سے نہ رگڑو اس سے چہرے کی آپ جاتی رہتی ہے۔ اپنے پاؤں کے تلوے کو چھاویں اور اینٹ سے نہ رگڑو اس سے برس کا مرض پیدا ہوتا ہے۔
-راوی امام رضا کے حوالے سے روایت کرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے شراب پی اس کی نماز 40 دن تک حساب میں نہیں لی جاتی۔ اپ نے فرمایا؛ اس حدیث کے راویوں نے سچی بات کی ہے. میں نے عرض کیا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی نماز پورے 40 دن تک حساب میں نہ لی جائے نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ اپ علیہ السلام نے فرمایا؛ اللہ جب انسان کو خلق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو 40 دن تک بشکل نطفہ رہتا ہے پھر اسے دوسری حالت میں بدلتا ہے تو 40 دن تک مضغہ بنا رہتا ہے پھر دوسری حالت میں بدلتا ہے تو 40 دن تک علقہ بنا رہتا ہے اسی طرح شراب خور جب شراب پیتا ہے تو اس کے مثانے میں 40 دن تک رہتی ہے۔ جتنے عرصے میں اس کی خلقت ہوئی تھی اور اسی طرح اس کی غذا اس کا کھانا اس کا پینا اس کے مثانے میں 40 دن تک باقی رہتا ہے۔
-راوی بیان کرتے ہیں کہ امام علی بن حسین علیہ السلام نے غسل میت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی مخلوق اس وقت تک نہیں مرتی جب تک اس میں سے وہ نطفہ نہ نکل جائے جس سے اللہ تعالی نے اس کو پیدا کیا ہے۔ خواہ اس کے منہ کی طرف سے ہوا کسی اور جگہ سے.
-امام جعفر صادق نہیں فرمایا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ لڑکی جو ابھی کچھ کھاتی نہیں صرف دودھ پیتی ہے اگر اس کا دودھ اور پیشاب کپڑے پہ لگ جائے تو اسے دھویا جائے گا اس لیے کہ دودھ اس کی ماں کے مثانے سے نکلتا ہے اور وہ لڑکا جو ابھی کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے صرف دودھ پیتا ہے اس کا دودھ یا اس کا پیشاب اگر کپڑے پہ لگ جائے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ اس کا دودھ کاندھوں اور بازوں سے تیار ہو کے نکلتا ہے.
اسی طرح عوامر اور نواہی میں انسانی صحت اور سلامتی پوشیدہ ہوتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا مثلا؛
-امام جعفر صادق نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر ہرگز پانی نہ پیو(غالبا شام کے وقت) اور کسی قبر کے گرد ہرگز چکر نہ لگاؤ اور پاک صاف پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرو اس لیے کہ جو ایسا کرے گا اس کو اگر کوئی مرض لگ جائے تو وہ اپنے سوا کسی کو برا نہ کہے اور پھر اس سے وہی چھٹکارا پائے گا جس کو اللہ چاہے گا۔
-امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بیت الخلا میں بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے بواسیر کا مرض ہوتا ہے.
-راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پانی جو دھوپ سے گرم ہوا ہو اس سے نہ وضو کرو نہ غسل کرو نہ اٹا گوندو اس لیے کہ اس سے مرض برص پیدا ہوتا ہے۔
انسان کے جسمانی نظام کے متعلق اللہ تعالی کے بیان کردہ علم کا یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے سورۃ الکہف میں ارشاد باری تعالی ہے قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّىْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّىْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا (109) (کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں۔)
الہذا ایک طرف تو سورۃ ملک میں اللہ تعالی فرماتا ہے اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ؕ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْـرُ (14)(بھلا وہ نہیں جانتا جس نے (سب کو) پیدا کیا وہ بڑا باریک بین خبردار ہے۔) اور دوسری طرف انسان کو دعوت دیتا ہے :كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۹ (صٓ ۳۸: ۲۹)(یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پراس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل فہم اس سے نصیحت حاصل کریں) اور ساتھ ہی اس کا بہت بڑا احسان ہے کہ اپنی ایات پہ غور کرنے کے لیے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ احادیث کی صورت میں پوری رہنمائی بھی چھوڑی ہے۔لیکن ہم اگر اپنے عقیدے عمل اور ایمان پر غور کریں تو ہم اسی بحث سے نہیں نکل پاتے کہ فلاں فرقے میں فلاں چیز جائز ہے اور فلاں چیز ناجائز جبکہ علم کے پہلو کو ہم نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ دوسری جانب اہل مغرب نے فتنہ تاتار میں ان ہستیوں کے تلامذہ کی چند کتب ہاتھ لگنے پر سائنسی ترقی کی دنیا میں نہ صرف قدم رکھ لیا بلکہ اگے بڑھتے چلے گئے اور ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی تحقیق کے محتاج ہیں جنہوں نے ہمارے اسلاف کے علم کی بنیاد پر ترقی کی اور امام جعفر صادق کو "سپر برین اف اسلام” قرار دیا۔ حالانکہ اس نے ہمیں کائنات کے علم سے اس طرح نوازا ہے کہ ایک طرف قران میں یہاں تک بتا دیا کہ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ۚۖ-وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق 16)(اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔) یہاں تک کہ یہ بھی کہ وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(13)اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاﭤ(بنی اسرائیل 14)(اور ہر انسان کا پرندہ ہم نے اس کے گلے میں لگادیا ہے اور ہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔۔( فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔) اور پھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے نماز کے بعد سلام پھیرنے کی وجہ بتاتے ہوئے یہ وضاحت بھی کر دی کہ انسان کا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کی نشست انسان کے جبڑے کے عین اگے ہے۔ یعنی اس سسٹم کے تحت انسان کے اعمال نوٹ کیے جاتے ہیں اس کی صریح وضاحت کر دی لیکن ہم اس کی ہدایت سے بد دستور منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
اختتام اسی دعا کے ساتھ کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(آل عمران 8)
اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔