Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

’’لسانیات اور کثیر الشعبہ تحقیق‘ویمن یونیورسٹی میں تین روزہ کانفرنس شروع

ویمن یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی گئی، جس کا عنوان’’لسانیات اور کثیر الشعبہ تحقیق‘‘ تھا ۔

کانفرنس کی مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر صائقہ امتیاز آصف تھیں، جبکہ مہمان اعزاز کے طور پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی ( نواز شریف زرعی یونیورسٹی), وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان ( ایمرسن یونیورسٹی), وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی ( بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی) اور ڈاکٹر نوید احمد چوہدری نے شرکت کی۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ لسانیات اس علم کو کہتے ہیں ، جس کے ذریعے زبان کی ماہیت ‘تشکیل‘ارتقا‘زندگی اور موت کے متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

زبان کے بارے میں منظم علم کو لسانیات کہا جاتا ہے۔یہ ایسی سائنس ہے جو زبان کو اس کی داخلی ساخت کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان میں اصوات‘خیالات‘سماجی صورتِ احوال اور معنی وغیرہ شامل ہیں ۔

زبانیں ہمارے سوچنے کے طریقوں، دوسرے لوگوں سے ہمارے تعلقات، ہماری انفرادی اور اجتماعی یادداشت، ہماری ثقافت اور سماجی شناخت سے جڑی ہوتی ہیں۔

ہم ایک دوسرے سے حیاتیاتی طور پر اور کائنات سے جوہری طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں رنگ،مذہب ،نسل، عقیدے سے بالاتر ہو کر تمام مذاہب کی زبانوں کو یکساں احترام دینا چاہیے ۔

آخر میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے تمام وائس چانسلرز کا شکریہ ادا کیا۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر صائقہ امتیاز آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زبانیں سماجی کاموں، بین الثقافتی تعامل اور سیکھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

ان شعبوں اور افعال کو سمجھنا، سمجھانا اور ممکنہ طور پر ان میں اضافہ کرنا عام طور پر کثیر الثباتی نقطہ نظر کا تقاضا کرتا ہے اور 20ویں صدی کے آخر سے لسانیات کی نئی شاخیں ابھری ہیں، مثال کے طور پر نفسیات، سماجی لسانیات اور اعصابی لسانیات۔بڑے کثیر الشعبہ تحقیقی گروپ آج پندرہ سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ عام ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے کہا کہ علم ایک سمندر ہے پاکستان میں رہتے ہوئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انگریزی زبان پر عبور ہونا چاہیے، ہمیں اس میں لکھنے اور بولنے کی مہارتوں میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد رمضان نے کہا کہ زبان کو علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔

کانفرنسز کا مقصد موجودہ مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں جلد ہی ٹرانسلیشن سینٹر قائم کیا جائے گا ،جہاں مختلف علاقائی زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے لیے ہم دوسری یونیورسٹیوں کی خدمات حاصل کریں گے۔

وائس چانسلر محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی، ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ زبان کا تعلق خطے سے ہے جو اس کی ثقافت تہذیب ،رسم ورواج کی عکاسی کرتی ہے۔

ڈاکٹر نوید چوہدری نے تحقیقی حوالے سے سائبر سیکورٹی اور سائبر کرائم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس میں بین الااقوامی مقررین میں ڈاکٹر سٹیفن کرشین، کیلیفورنیا یونیورسٹی، اور مسٹر توروالی، یونیورسٹی آف سڈنی نے خطاب کیا۔

پہلے سیشن میں متعدد معزز مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔کانفرنس میں ڈاکٹر مبینہ طلعت، ڈاکٹر منور اقبال، اور ڈاکٹر عاصم محمود نے شرکت کی۔

دوسرے سیشن میں ڈاکٹر ایلس گیبی، ڈاکٹر سٹینبرگ، ڈاکٹر ہیو فین، ڈاکٹر جنجوعہ، ڈاکٹر مہدی، اور ڈاکٹر فتحی نے اپنا لیکچر دیا۔

پلینری سیشنز کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل سیشنز بھی منعقد ہوئے، ادب پر ​​دو سیشن منعقد ہوئے۔

جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر ضیا احمد اور ڈاکٹر عبداللہ محمود نے کی۔لسانیات پر دو سیشن ہوئے جن کی صدارت ڈاکٹر مسرور سبطین اور ڈاکٹر منتظر مہدی نے کی۔

فوکل پرسن ڈاکٹر میمونہ خان کا کہنا تھا کہ زبان کے ارتقاء کا مطالعہ جدید سائنسی تحقیق میں دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ اس احیاء کے میدان میں، لسانیات کے علاوہ متعدد شعبوں سے نقطہ نظر کو اپنایا گیا ہے ، اس کانفرنس میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح یہ کثیر الثباتی تناظر زبان، اس کے ارتقاء، اور انسانی ادراک کی جامع تفہیم میں اہم بصیرت پیدا کرتا ہے۔

بعدازں شرکا میں سرٹیفکیٹس تقسیم کئے گئے اور مہمانوں کو اعزازی شیلڈ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے پیش کی۔

دن کے اختتام پر صوفی نائٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button