پائیڈ کی 37ویں کانفرنس شروع ہوگئی ،دنیا بھر کے ماہر معاشیات کی شرکت
پاییڈ کی سالانہ 37ویں کانفرنس کا بہاء الدین یونیورسٹی ملتان میں آغاز ہوگیا، یہ کانفرنس چار روز تک جاری رہے گی۔
زکریا یونیورسٹی ملتان کے باہمی اشتراک سے منعقدہ کانفرس میں جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع کی یونیورسٹیز کے اساتذہ، طلباء، ریسرچرز ا اور ماہر اقتصادیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے ریسرچ کے انعقاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ سوال نہیں کرتے، آپ کو سوال کرنے چاہیے۔ ایک دوسرے کیساتھ مل بیٹھ کر ملکی مسائل پر بات چیت ہونی چاہیے۔ کانفرنس نہایت عمدہ پلیٹ فارم ہے جہاں پر ہر مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں، اور پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے پالیسی سفارشات مرتب اور پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کو بار بار عالمی مالیاتی اداروں با لخصوص آئی ایم ایف کے پاس بار بار نہیں جانا چاہیے، آئی ایم ایف ایک ایمرجنسی وارڈ ہے، جس میں صرف انتہائی تشویشناک حالت میں جایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے موجودہ وسائل کو بروئے کار لانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ غیر ملکی زرمبادلہ اور بیرونی تجارت سے پاکستان کے معاشی مسائل میں کمی ممکن ہے۔
ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا کہ اس بار ہم نے جنوبی پنجاب کا انتخاب کیا تاکہ اس میں تمام علاقے سے اساتذہ، ماہرین، طلباء اور ریسرچرز شرکت کریں، اور اپنے لوکل مسائل کے حل کے لیے لوکل ریسرچ کریں۔
پہلے سیشن میں ڈاکٹر شاید محمود، ریسرچ فیلو پائیڈ، اسد ہمایوں، سابقہ سیکریٹری اکنامک افیئرز ڈویژن، ٹو بائس حق، لیڈ کنٹری اکانومسٹ ورلڈ بینک اور نوید عزیز نے کہا کہ پاکستان نے قیام کے بعد سے دو سو بلین ڈالر بیرونی قرضہ لیا، اور اس کے بعد پھر قرض لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا جوکہ اب تک جاری ہے۔
پاکستان کے مشہور معیشت دان ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ اس وقت روس اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں افراط زر آیا ہے، اور ممالک کو بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے مجموعی قرضے کی بہت خوبصورت انداز میں منظر کرشی کی اور ان چیلنجز کا تذکرہ کیا، جن سے ہمارا ملک پچھلی کہیں دہائیوں سے شکار ہے۔