Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ویمن یونیورسٹی ملتان میں دو روزہ انٹرنیشنل ورچوئل کانفرنس شروع

ویمن یونیورسٹی ملتان میں دو روزہ انٹرنیشنل ورچوئل کانفرنس شروع ہوگئی ، جس کا عنوان "معیشت اور سماجی علوم میں عصری مسائل‘‘ہے ۔
افتتاحی سیشن میں خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ سماجی علوم کا تعلق معاشرے کے سماجی رویوں اور ثقافتی پہلوؤں سے ہے۔ سماجی علوم میں معاشیات ، ، بین الاقوامی تعلقات ،سیاسیات، تاریخ ، نفسیات اور عمرانیات شامل ہیں۔ یہ شعبے ثقافتی پسِ منظر ، سماجی احکامات پر تعلیم کے سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک کی تاریخ ، قومی اور بین الاقوامی پسِ منظر میں سیاسی تعلقات، ملکی اور سماجی معیشت اور انسانی رویوں کے بارے میں سیکھنے کے مواقع مہیا کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے مسائل پر تنقیدی اور تحقیقی آگاہی کی غرض سے طلباء اور طالبات جدید طرزِ تعلیم کے جذبے سے لبریز ہو کر تعلیمی نظریات کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہماری یونیورسٹی جدید تقاضوں سے لیس ہوکر طالبا ت کو موجودہ مسائل سے نبردآزما ہونے کی تربیت دے رہی ہے، موجودہ کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں موجودہ معاشی مسائل اور عصری مسائل کو زیربحث لایا جانا ہے۔
کانفرنس میں مدعو افراد اپنی فیلڈ میں یکتا ہیں، ان کے خیالات سوچ کے نئے زاویوں کو سامنے لائیں گے اور ہم ایک ایسا اعلامیہ بنانے میں کامیاب ہوں گے، جس میں موجودہ معاشی مسائل اور سماجی مسائل سے نمٹنے کی آگاہی اور رہنمائی شامل ہوگی۔
زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی، نے کہا کہ سماجی علوم کی ترقی کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے نہات اہمیت کی حامل ہے۔مضبوط جمہوری اور ترقی یافتہ قومیں سوشل سائنس ریسرچ کلچر کی طویل تاریخ کی حامل ہیں۔کسی معاشرے کی اصلاحات بھی اس حقیت پر مبنی ہیں کہ سوشل سائنسز پر توجہ مرکوز کی جائے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جب برتری کا پیمانہ سائنس اور معیشت سمجھی جاتی ہے، تو کچھ پرکشش روزگار کی کمی اور کچھ دیگر علوم کے غلبے سے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سماجی علوم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ بالخصوص سکولوں کی سطح پر آرٹس کو نہایت حقارت سے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے اساتذہ کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سائنس کا انتخاب نہ کرنے والے طلبا کو یہ باور کرا دیتے ہیں کہ اگر وہ آرٹس پڑھے گا تو کہیں نوکری ہی نہیں ملے گی، بلکہ اس کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔نتیجتاً ہر طالب علم سائنس اور کامرس کے پیچھے بھاگتا نظر آتا دراصل علوم ہی تو سماج سے جڑے ہوئے ہیں، سائنس اور معیشت پر ضرور ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے، لیکن اسے سماجی علوم کی چھاؤں نہ ملے تو یہ ترقی دیرپا نہیں ہوتی۔
سماجی علوم اور اس سے جڑے قدیم و جدید نظریات، مسائل اور مباحث کو ان کی نئی جہتوں کے تناظر میں نہ صرف جاننے اور پرکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ان تما م چیلنجز کو بھی زیر غور لایا جائے کہ جس کی بنیاد پر درسگاہوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے اور ساتھ ہی اعلیٰ معیاری تعلیم کے فروغ اور اسے معاشرے کے لیے زیادہ مفید و کارآمد بنانے کے لیے سمت متعین ہوسکے۔
سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات، ادب، ابلاغ عامہ، دینیات، نفسیات، معاشیات، تاریخ، فلسفہ، جرمیات اور لسانیات سمیت کتنے ہی سماجی علوم ایسے ہیں کہ جن کے نئے رجحانات اور نظریات نہ صرف تبدیل ہو رہے ہیں، بلکہ ان کی تبدیلی پورے سماج کی روایات اور اقدار کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر عمران شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کے معاشی مسائل میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور ایسے دیگر ممالک میں فرق یہ ہے کہ انکے معاشی مسائل کی وجہ معدنی وسائل کا فقدان یا پھر انکی جغرافیائی حیثیت نہیں ہے، معیشت کی بہتری کے لیے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کی طرف سے مبینہ ‘کرپشن کرنے والوں کے احتساب کے پلیٹ فارم کا بغیر سوچے سمجھے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال پاکستانی معیشت کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک پروجیکٹ نے پاکستان میں معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہیں کھول دی ہیں، اس سے عوام کو روزگار کے مواقع میسر ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے پر نمایاں اثرات کیلئے پاکستان کو اس قدر بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد پر بھروسہ کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کیلئے موافق ماحول یقینی بنانا ہوگا جو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے۔
پاکستان کو اپنی مقامی صنعت پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بطور برآمد کنندہ اس کا تعارف وسیع اورعالمی منڈیوں میں اس کی مسابقتی صلاحیت میں اضافہ ہو ۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے مہینے موجودہ حکومت کیلئے سخت ہوں گے کیونکہ روپیے کی قیمت میں مزید گراوٹ کا امکان ہے، جس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کا معاشی بحران ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا سہارا بکھرتی ہوئی معیشت کو محض چند سانسیں ہی فراہم کرسکے گا۔
سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کرنے والی صنعتوں کو جدید بنانا ہے حکومت جنہیں بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کے معاملے سے نمٹنے کیلئے اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان کو، قبل اس کے کہ وہ ایک بار پھر سے خود کو قوم کیلئے معاشی قبر کھودتے ہوئے پائے، اس بمشکل ملنے والی عارضی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحیح معنوں میں مستحکم اور پائیدار معیشت کی تعمیرکرنا ہوگی۔
ڈاکٹر لی چن نے لکھنے اور اشاعت کے حوالے سے شرکاء کو جدید خطوط پر تحقیق کرنے اور مقالہ نویسی کے بارے میں آگاہی فراہم کی۔
ڈاکٹر حفیظ رحمان نے کوڈ 19 کی وجہ سے معیشت پر پڑھنے والے اثرات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر سعدیہ ارشاد، ڈاکٹر ملکہ لیاقتش اور ڈاکٹر ریما نظر نے کی سیشن میں سات مقالے پیش کیے گئے۔
اس کانفرنس کی فوکل پرسن چیئرپرسن شعبہ اکنامکس ڈاکٹرحنا علی ہیں ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button