کچھ بیماریوں اور اللہ کی نازل کردہ کتب کی روشنی میں ان کے اسباب کی تفصیلا وضاحت کی ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنکس پر کلک کریں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات ( قسط نمبر 1)
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 2)
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 3)
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 4)
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر5)
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 6)
: اللہ رب العزت کی یہ سنت رہی ہے کہ جب بھی معاشرے میں برائیاں اور بگاڑ پیدا ہوتا تھا تو انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو مبعوث کرتے تھے جو ایک طرف تو توحید کی تعلیم کے ذریعے لوگوں کے گمراہ کن عقائد کی اصلاح کرتے تھے اور دوسری طرف اس زمانے اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق دیگر علوم کی بھی تعلیم دیتے تھے طب جن کا لازمی جزو تھا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر وہ معاشرہ جو برائی اور زبوں حالی کا شکار ہوتا ہے اس میں دو طرح کے طبقے ہوتے ہیں ایک ظالم اور طاقتور اور دوسرا مظلوم اور پسا ہوا۔
لہذا مذہب کے ذریعے جو ہدایت نازل ہوتی ہے اس کا مقصد دونوں طبقات کی اصلاح کرکے ایک متوازن معاشرہ قائم کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو ظالم کی ہدایت کے لئے اسے اللہ کے عذاب سے ڈرانا مقصود ہوتا ہے یعنی اس کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ اللہ کا نظام ہے کہ ظلم کرنے والے کو اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ عذاب جسمانی اور ذہنی تکلیف کی صورت میں دنیا میں ہی شروع ہو جائے گا جیسا کہ سورۃ البروج میں ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَتُوۡبُوۡا فَلَہُمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَ لَہُمۡ عَذَابُ الۡحَرِیۡقِ ﴿ؕ۱۰﴾
جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا اور عذاب بھی ہو گا اور جلنے کا عذاب بھی۔
لہذا وہ اگر دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ ظلم زیادتی اور استحصال سے باز رہیں۔
ساتھ ہی ہدایت کا جو لازمی جزو یعنی توحید ہوتی ہے اس کا مقصد دونوں قسم کے طبقوں کو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کرانا یعنی ظالم اور مظلوم دونوں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اللہ ہی سپریم پاور ہے اور سب انسان برابر ہیں لہذا کسی نہ ہی کسی انسان کو حاکم اعلی بننے کا اختیار ہے اور نہ ہی ایسا دعویٰ کرنے والے کی اطاعت کرنی چاہیئے ۔
یعنی دوسری طرف پسا ہوا طبقہ جو کہ خوف اور مایوسی کے سائے میں زندگی بسر کر رہا ہوتا تھا اس میں حق پر چلنے اور صرف اللہ کے آگے جھکنے کی قوت ایمانی پیدا کرنا مقصود ہوتا تھا یعنی انسانوں کی غلامی سے نکل کر وہ ایک اللہ کی اطاعت کریں اور اگر پھر بھی انہیں ظلم اور جبر سے نجات نہ ملے تو ہجرت انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ سورہ النساء آیات 97 اور 98 میں ارشاد ہے :
اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ ظَالِمِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَالُوْا فِيْـمَ كُنْتُـمْ ۖ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ قَالُـوٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةً فَـتُـهَاجِرُوْا فِيْـهَا ۚ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوَاهُـمْ جَهَنَّـمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا (97) ↖
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْـدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَـةً وَّلَا يَـهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا (98) ↖
ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے واقعی کمزور ہیں جو نکلنے کا کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں پاتے
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالٰی جان بوجھ کر ظلم برداشت کرنے کو پسند نہیں کرتا۔
مختصر یہ کہ اللہ اپنے جن بندوں کو پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجتا ہے ان کے لئے طب کا علم اس لیے ضروری ہوتا تھا کہ ایک طرف تو انہیں بحیثیت روحانی طبیب اس دور کے انسانوں میں موجود روحانی بیماریوں یعنی ظلم، نفرت، غصہ، مایوسی، خوف، حسد وغیرہ کا اخلاقی تربیت اور غذائی تبدیلیوں کے ذریعے سدباب کرنا ہوتا تھا اور دوسری طرف ان روحانی بیماریوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جسمانی بیماریوں کی دوا کی بھی رہنمائی کرنی ہوتی تھی ۔
جیسا کہ میں نے سابقہ تحریر میں حضرت موسی علیہ السلام اور بعدازاں حضرت عیسی علیہ السلام کی بنی اسرائیل کو اخلاقی طور پر بہتر بنانے کی کوششوں کا تفصیلی ذکر کیا ، تمام انبیاء اسی طرح اپنے وقت کے انسانوں کے استاد اور طبیب تھے ۔
لہذا ہر اس دور اور علاقے میں جہاں انبیاء مبعوث ہوئے وہاں کھائی سے urbanization کا پتہ چلتا ہے، اور آخر میں ہمارے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کہ نبوت سے پہلے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے انہیں اللہ نے تمام سابقہ انبیاء کا علم عطا کیا جوکہ نا صرف اس وقت کے لوگوں کے لئے کافی تھا بلکہ تا قیامت تمام آنے والے انسانوں کے لئے کافی ہے ۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اہل علم نے یونانی مفکرین کی کتب کی کے مطالعے کے بعد طب یونانی کی بنیاد ڈالی۔
درحقیقت یہ تصور بالکل غلط ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے نبی کریم صلعم کو جو علم سکھایا تھا طب بھی ان کا حصہ تھا لہذا متعدد احادیث کی روایات میں ان کے بیماروں کا علاج کرنے کے واقعات ملتے ہیں، جنہیں بہت سے افراد نے طب نبوی کے مضمون سے اپنی کتب میں محفوظ کیا ہے ۔
ان کے بعد تمام علم اہل بیت یعنی حضرت علی اور ان کی اولاد میں منتقل ہوا جسے طب الصادق، طب الائمہ، طب معصومین اور صرف ایک راستہ نامی کتابوں میں مصنفین نے ائمہ معصومین کی طب کے متعلق منتخب احادیث اور روایات کی صورت میں منظم کیا ہے۔ ایک مشہور تصنیف "سپر مین آف إسلام” میں مصنف نے اسلامی ترویج علوم کی ابتدائی صدی میں یونانی فلسفے سے متاثر ہونے کی یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ امام جعفر الصادق کے دور سے پہلے یونانی کتب کا عربی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا لہذا امام جعفر الصادق کے والد امام باقر تک کے دروس میں جن علوم کی تعلیم دی جاتی تھی وہ خالصتا قرآن اور حدیث پر مبنی تھے اور تاریخ کے حوالے تورات سے لئے گئے تھے ۔
بعد ازاں امام جعفر الصادق علیہ السلام کی کتب مثلاً توحید مفضل میں یونانی علوم کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے بعد ان کے شاگردوں کا جو سلسلہ جابر بن حيان سے أمام رازی اور ان کے بعد بوعلی سینا تک، سب نے قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں یونانی فلسفے پر تحقیق کی، اور کئی نظریات کو رد اور کئی کی تصحیح کرنے کے بعد ان نظریات کو قبول کیا جو اسلامی فلسفے کے مطابق تھے ۔
زمانہ قدیم کے آخری طبیب جالینوس تھے جو کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مبلغین میں سے تھے، اور جنہیں صحیح عقائد کا پرچار کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا ۔
چونکہ قرآن مجید میں شفا کے علم کو حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ بتایا گیا ہے اس لئے مسلمان حکما نے جالینوس اور اس کے پیروکار نصارٰی سے طب کا علم حاصل کیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے دیئے گئے علم کے بغیر طب کو باقاعدہ زندگی کا ایک اہم شعبہ بنانا نا ممکن تھا۔
1995 میں جالینوس اور بو علی سینا کے علم کے تقابلی جائزے کے لئے یہ تحقیق کی گئی:
Galenic heritage in the neuroanatomy of Avicenna ‘s
Canon of medicine
Gregory Peter Licholai
اس تحقیق میں امام رازی کے متعلق کچھ اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے :
Abu Bakar Muhammad ibn Zikriya al Razi, known to Europeans as Razes ( d. 1925 A.D ) was considered as the preeminent clinical genius of his time. He was born in Raiy (Rhages) and after being a poet and singer, studied medicine in Baghdad where he became the head of a hospital. In addition to medicine Razes compiled a number of works in philosophy, in which he took the unusual view of denouncing Aristotle and proclaiming the superiority of Plato and Socrates. He also stated that there is no need for prophets and urged individuals to achieve salvation on the basis of their own intelligence, choices and faith. However, it was with his medical texts that Razes achieved lasting fame.
اس تحقیق سے جو چیزیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک تو اس نے فلسفے میں ارسطو کے نظریات کو رد کیا جبکہ افلاطون اور سقراط کے نظریات کو قبول کیا اور دوسرا یہ کہ عقیدہ ختم نبوت پر زور دیتے ہوئے لوگوں کو تاکید کی کہ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے کا اس لئے انہیں اپنی مرضی، ذہانت اور ایمان کے بل بوتے پر نجات حاصل کرنی ہے ۔
اس مقالے میں محقق بو علی سینا کی تصنیف "Canon of medicine ” میں اعصابی نظام کی تشریح میں جالینوس کے علم کے حصے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے :
Although as a great organizer of Galen, Avicenna along made original contribution to knowledge of neuro anatomy.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بو علی سینا کا جو original contribution تھا اس علم کا ماخذ کیا تھا۔
میں نے پچھلی تحریر میں بھی وضاحت کی کہ شفا کا علم حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ تھا، اور ان کے پیروکاروں کو اس میں عبور حاصل تھا، لیکن اہل کلیسا کا علاج کا طریقہ انتہائی سادہ تھا مسن میں انسان کے چار مزاجوں میں توازن پیدا کرنا، سات قسم کے تیلوں کی مالش کرنا اور مریض سے ہمدردی اور اس کے لیے دعا کرنا شامل تھا۔
جبکہ زمانہ قبل از مسیح میں مصریوں میں علاج کے لئے محدود ادویات کے لئے جڑی بوٹیوں کا استعمال کیا جاتا تھا جن کا علم اہل کلیسا کو یونانیوں کے ذریعے حاصل ہوا۔
بعض اسکالرز جالینوس کے محدود علم کا یہ عذر پیش کرتےہیں کہ چونکہ اہل کلیسا کی اخلاقی پابندیاں بہت سخت تھیں، لہذا اس وقت انسانی جسم کی چیر پھاڑ dissension پر سخت پابندی تھی اس لئے اس نے صرف جانوروں پر تجربات کیئے۔
ممکن ہے کہ بعد ازاں مسلمان اہل علم نے dissension کیئے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کی پیدائش اور اٹانومی کی جو معلومات قرآنی آیات اور آل رسول کے اقوال کے ذریعے انسان تک پہنچی ہیں انہوں نے کسی dissection اور altrasound کے بغیر انسان کی اندرونی ساخت کی تمام تر تفصیلات واضع کر دی تھیں۔
,
ہمارے ہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو انسان قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتا ہے وہ کسی صورت تاریخ علوم کا مطالعہ گناہ کبیرہ سمجھتا ہے، دوسری طرف جو قدیم تاریخ کے محقق ہوتے ہیں وہ قرآن و حدیث کے قریب نہیں پھٹکنے۔
لہذا اگر کسی انسان کو دونوں شعبوں کا واجبی سا بھی علم ہو تو اس سوال کا جواب کہ بورڈ علی سینا کا طب میں جو اپنا کردار تھا اس علم کا ماخذ کیا تھا، کا حوالوں کے ساتھ دینا انتہائی آسان ہے وہ یہ کہ قرآن و حديث میں انسان کی فلاح کے لئے نہ صرف حفظان صحت کے اصول بلکہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کے مراحل نیز انسان کے جسمانی نظام کا بیان ملتا ہے جسے ائمہ کرام نے مزید وضاحت اور عام فہم انداز میں اپنے شاگردوں تک منتقل کیا ہے۔
مثال کے طور پر سورہ الطارق کی آیات پر غور کریں :
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ (1) ↖
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2) ↖
اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔
اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ (3) ↖
وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْـهَا حَافِظٌ (4) ↖
ایسی کوئی بھی جان نہیں کہ جس پر ایک محافظ مقرر نہ ہو۔
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5) ↖
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ (6) ↖
ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ (7) ↖
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
اِنَّهٝ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ (8) ↖
بے شک وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے
یہاں پر پہلی آیت میں دمدار ستارے کا ذکر کیا گیا ہے پھر آگے کی آیات میں انسان کی پیدائش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر ہے ۔ اس کے تعلق پر اگر ہم غور کریں تو انسان کی پیدائش کے ابتدائی صورت یعنی spurn بالکل دمدار ستارے سے مشابہ ہوتی ہے ۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کا عیسائی اور ہندو طبیب کے ساتھ مکالمہ کافی مشہور ہے جس میں اول الذکر میں انہوں نے جسم کی ہڈیوں اور پٹھوں کی تعداد بتائی ہے اور آخر الذکر میں انسانی جسم کے تمام اندرونی اور بیرونی اعضاء کی اشکال اور مصلحت کی بہت عام فہم انداز میں وضاحت کی ہے مثلا:
۱٤۔ دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔
۱۵۔ پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔
۱۶۔ جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔
۱۷۔ گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔
قابل توجہ امر یہ ہے اگر یونانیوں اور عیسائیوں کے پاس مکمل علوم ہوئے تو انہیں امام جعفر علیہ السلام سے استفسار کرنے کی کیا ضرورت تھی یا کم از کم مناظرے میں ہی غالب آجاتے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نا صرف امام جعفر بلکہ تمام ائمہ کرام کے شاگردوں میں یہودی اور عیسائی بھی سر فہرست تھے، جن میں سے بہت سوں نے علمی کارنامے اور ایجادات کیں۔
جبکہ ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عرب جیسی وحشی قوم کی نا صرف اخلاقی تربیت اور اصلاح کی بلکہ عملی طور پر بیماروں کے لیے ان کے مرض اور مزاج کی نوعیت کے لحاظ سے دوا اور پرہیز تجویز کرنے کی باقاعدہ روایت قائم کیز نیز حجامہ یا پچھنے لگا کر فاسد خون نکالنے کا علاج بھی متعارف کرایا۔
صحیح البخاری کتاب الطب کی ایک حدیث میں آپ کا فرمان ہے :
(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الرحيم، اخبرنا سريج بن يونس ابو الحارث، حدثنا مروان بن شجاع، عن سالم الافطس، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” الشفاء في ثلاثة: في شرطة محجم، او شربة عسل، او كية بنار، وانا انهى امتي عن الكي”.
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سریج بن یونس ابوحارث نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے مروان بن شجاع نے بیان کیا، ان سے سالم افطس نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شفاء تین چیزوں میں ہے؛ پچھنا لگوانے میں، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔
یہی وجہ تھی کہ ائمہ کرام کے تلامذہ کا جو سلسلہ چلا اس نے آگے چل کے قرآن و حدیث کے ان ہی علوم پر نہ صرف مزید تحقیق کرکے غلط قدیمی نظریات کا رد اور تصحیح کی بلکہ عملی طور پر تجربات کرکے انہیں باقاعدہ شعبوں کی شکل دی۔
طب کے شعبے میں جن لوگوں نے عملی تجربات کیئےان میں پہللا نام جابر بن حيان کا ہے جوکہ امام جعفر الصادق کے شاگرد خاص تھے، اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے امام عالی مقام کے ساتھ قرآن کی تفسیر پر بھی کام کیا اور کیمیا میں ان کی ایجادات جیسے عروق وغیرہ بعد میں آنے والے اطباء کے نسخوں کا حصہ بنیں ۔
ان کے بعد آنے والے لوگوں میں امام رازی کا نام قابل ذکر ہے جن کی قرآن کی تفسیر "تفسیر کبیر” کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں، دوسری جانب المنصوری اور الحادی نامی کتب جن کے کئی حصوں میں انہوں نے بحیثیت ایک ماہر طبیب اپنے تجربات رقم کیئے ہیں۔
الرازی کے تقریبا سو سال بعد بو علی سینا (980 تا 1037) مسلم دنیا کے ایک ماہر طبیب کی حیثیت سے ابھرے، جن کی کتب "القانون فی الطب” اور "کتاب الشفا” کے بہت سی زبانوں میں تراجم ہوئے، جنہیں آنے والی صدیوں میں یورپ کی طبی درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے، بھی ایک دیندار مسلمان تھے ۔
اگرچہ پیدائشی طور پر وہ اسماعیلی تھے، لیکن بعد میں انہوں نے حنفی مسلک اختیار کیا۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور طب کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی فلسفے پر بھی کام کیا اور کچھ سورتوں کی تفسیر بھی کی (جنہیں چونکہ الغزالي جیسے فقہا نے رد کر دیا تھا اس لیے ہم ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے )، یہی وجہ ہے کہ ان کے کام میں قرآن اور حدیث معصومین کا اثر نمایاں ہے ۔
مثال کے طور پر امام رضا علیہ السلام نے خلیفہ ماموں الرشید کو طبی ہدایات پر مبنی ایک خط لکھا جو "رسالہ ذہبیہ فی اسرار علوم طبیعہ” کے نام سے مشہور ہے، اس کے کچھ مندرجات دیکھیں :
بالکل وہی چیزیں Canon of medicine کے متعلق Wikipedia میں بتائی گئی ہیں :
انسانی زندگی کی چار حالتوں کے متعلق :
اسی طرح جسم کے مختلف حصوں کی حالت کے متعلق :
Avicenna describes a hot versus cold / moist versus dry equilibrium between the members of the human body. The heart, for example, is hot and must be in equilibrium of other cold parts of the body such as the brain. When this equilibrium between these members are achieved, the person is considered to be in "ideal equability”.
نیز Wikipedia کے اسی صفحے میں اعضاء کے مزاج کی اسی طرح تفصیل درج ہے جس طرح امام صاحب نے بتائی ہے ۔
بعض مستشرقین یہاں تک کہ بہت سے مسلمان بھی طب سمت دیگر علوم میں قرآن و حدیث کے بنیادی کردار کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ اسلام کی تعلیمات قدیم تہذیبوں خصوصا عرب کے قدیم ادب سے متاثر دکھائی دیتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی بار آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ تمام انبیاء کرام کو توحید کی ایک ہی تعلیم دی گئی (اگرچہ وقت کی ضرورت کے مطابق شریعت میں تبدیل لائی جاتی رہی) خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہے :
مَا كَانَ اِبْـرَاهِـيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًاۖ وَّمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (67) ↖
ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْـرَاهِـيْمَ لَلَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهٰذَا النَّبِىُّ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ۗ وَاللّـٰهُ وَلِىُّ الْمُؤْمِنِيْنَ (68) ↖
لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراھیم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی تابعداری کی، اور یہ نبی اور جو اس نبی پر ایمان لائے، اور اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔
ان حقائق سے یہ واضع ہوتا ہے کہ چونکہ مکہ شریف سب سے پہلے اولاد ابراہیم علیہ السلام نے آباد کیا تھا، اس لیے ان کی زبان و ادب میں صحف ابراہیم کے اثرات موجود تھے ، کیونکہ عربی زبان خود عبرانی اور سریانی زبانوں کے ملاپ سے وجود میں ائی تھی ۔
دوسرا اس مماثلت کی ایک وجہ آیت نمبر 68 میں بتائی گئی ہے کہ موجودہ اسلام ابراہیمی شریعت کے قریب تر ہے ۔
تیسرا جس طرح اللہ ازل سے وحدہ لا شریک لہ تھا اور ابد تک رہے گا ، اس لئے توحید کی دی جانے والی تعلیم سبھی پیغمبروں اور رسولوں کے لئے یکساں تھی، ٹھیک اسی طرح انسان اور کائنات کی ترتیب وتخلیق بھی ازل سے یکساں ہے اور رہے گی۔
مثلاً آسمان کے بارہ بروج اور انسان کے چار مزاج ازل سے ہیں، اور ابدی تک رہیں گے۔
لہذا اٹانومی اور فلکیات وغیرہ کا وہی علم حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ تک سب کا علم یکساں تھا ۔
حاصل کلام یہ کہ اسلام نے طب سمیت جدید علوم کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
لہذا اگر اہل مغرب ائمہ معصومین کے شاگردوں کے علم کی بنیاد پر اتنی ترقی کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی مفکرین کی تحقیقات پر انحصار کرنے کی بجائے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر دین و دنیا دونوں شعبوں کا مطالعہ اور تحقیق ہم خود کریں۔